کباڑ خانہ

تحفے، جذبات اور کباڑ

مجھ میں اک بری عادت ہے سنبھال کے رکھنے کی 

 ترتیب کے ساتھ

 احتیاط سے 

کوئی آواز ہو 

کوئی تحفہ ہو، کوئی عادت ہو

کوئی لاج ہو

امید ہو،کوئی آس ہو

انتظار ہو

کوئئ خواب ہو 

کوئی بات ہو، کوئی یاد ہو

زرد پکھراج ہو

ہر شے سنبھلا کر رکھی

آج کچھ گھبراہٹ ہوئی

 تو سوچا کہ پرانا وقت جیتے ہیں

اس گزرے زمانے کو پھر سے یاد کرتے ہیں

دل کے اجڑے ویرانوں کو پھر آباد کرتے ہیں 

سوچوں کی ویرانی کو پھر سے شاد کرتے ہیں

آج کی رات کا جوبن گزروں کے نام کرتے ہیں

دل کے بند کمروں کو جو کھولا، اوپر تلے بے شمار گھٹریاں دھری تھی

 شائد سبب گھٹن  یہی تھیں۔

اک اک کر کے ہر شانداروقت کی نشانی پلٹتا گیا

اک اک کر کے سارا سامان باہر ڈھیر کر دیا

لیکن وجود کے کسی حصہ میں بھی وہ کوئی کیفیت ،تغیر نہ آیا۔

اب بس کچھ کانٹے بچے ہیں اک  کونےمیں

دھول۔۔۔ لٹکتے    جالے 

پسینے سے شرابور، گرد  سے اٹا چہرہ، پرانی ڈائری۔۔۔

یہی سوچ رہا ہوں کہ جب  تحفے

 نشانییاں یادیں 

جزبات کھو دیں تو فقط

 کباڑ کا سامان رہ جاتا ہے۔

اور اگر رکھتے، سنبھالتے جائیں

تو دل کا ویرانہ کباڑ خانہ بن کر رہ جاتا ہے

کباڑ خانہ رہ جاتاہے

فقط

 کباڑ خانہ

Naveed

I am an ordinary man.

Related post

2 Comments

  • کباڑ خانہ بیچنے یا پھینکنے کے لیۓ ہوتا ہے۔مگر یہ جو دل کے اندر محفوظ کباڑ ہوتا ہے اتنی آسانی سے پھینکا نہیں جاسکتا ہے۔

    • جی درست

Comments are closed.