با ادب با نصیب بے ادب بے نصیب

مسجد نبوی میں نعروں کا واقعہ پیش آیا تو سنجیدہ لوگوں نے شدید دکھ کا اظہار کیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بحثیت پاکستانی ہمیں نہ تو احساس ہے اور نہ ہی شعور، کہ مقامات مقدسہ کی تعظیم کیا ہے اور انکی حرمت کا پاس کیسے رکھنا ہے؟
ملک میں جاری مسلسل عدم تحفظ،غیر یقینی اور نا معلوم مستقبل کے خوف نے ہماری نفسیات جنگلی جانوروں جیسی کر دی ہے۔
آج بحثیت پاکستانی میں شرم محسوس کرتا ہوں۔

میری دلی خواہش ہیکہ عالمی اسلامی دنیا متحد ہو کر پاکستانیوں کی مقامات مقدسہ میں داخلہ پر پابندی عائد کر دے۔

مکہ معظمہ اور مدینہ شریف دونوں شہروں کے مزاج میں فرق ہے، مکہ اللہ کے گھر کی، خانہ کعبہ کی وجہ سے مکہ ہے۔۔۔۔۔

ہر کوئی اپنے رب کو منانے میں مصروف۔۔۔

کسی کا رب جبار ہے
کسی کا رب قہار ہے
کسی کا رب رحمن ہے
کسی کا رب رحیم ہے
اور کسی کاالمحب ہے۔
وہاں ایک ہر کوئی اپنے خدا سے
کبھی شکوہ کرتا ہے،کبھی دعا کبھی رحم کا طالب اور کبھی معافی کا۔۔۔۔

مدینہ شہر کو نسبت میرے آقا محمد رسول اللہ (ص) سے ہے۔
یثرب شہر مدینہ تب بنا جب میرے آقا کے قدم مبارک وہاں پڑے۔
مدینہ شہر کا ایک ہی قرینہ ہے
ادب
ادب
اور صرف ادب

سلطنت عثمانیہ کے سلطان کا چھڑی کے وار سے ریل انجن بند کروانا اور آج تک وہ انجن صرف اس وجہ سے دوبارہ نہ چلا کہ شہر رسول میں شور بلند ہوتا ہے۔

مسجد نبوی کی تعمیر شروع ہوئی تو ادب کے الگ ہی پیمانے تہہ پائے۔۔۔
کوئی پتھر اگر کہیں فٹ نہ بیٹھتا تو واپس فیکٹری جاتا جہاں ہتھوڑا استعمال کیا جاتا یا درستگی ہوتی، کہ آقا کے شہر میں کوئی اک بھی آواز کہیں بے ادبی میں نہ آجائے۔

دنیا میں کونسی ایسی عمارت ہے کونسا ایسا میگا پراجیکٹ ہے جسکے لیے تمام میٹیرئیل تمام یونٹ شہر سے دور صرف اس لیے لگے کہ کہیں آقا کے شہر میں باعث شور نہ بنیں۔

کوئی باوضو ہو کے کام کرتا اور کوئی حافظ کاریگر تلاش کر کر لاتا۔

آج شہر رسول میں کسی دوسری قوم کسی ملک کی وہ حالت نہ ہے جو ہماری ہے۔

ایسا افراتفری کا ماحول کہ کوئی اگر قران تقسیم کرے یا افطار کی کھجور اس کے کپڑے پھاڑنے تک جاتے ہیں ۔

کوئی افریقی کوئی عربی حتی کہ وہ اقوام جنہوں نے قحط دیکھ رکھا ہے جو جنگیں لڑ لڑ کہ فاقے مر رہے ہیں۔
وہ قومیں جنکے لیے اقا کے شہر کی نعمتیں جنت کے من و سلوی سے کم نہیں، وہ بھی خاموش بیٹھ کر آقا کے گھر ان کی مرضی انکی دین کی منتظر ۔۔

آج بالکل اسی جگہ جہاں اک سال قبل نعرے لگے تھے کوئی مخیر کہیں غلطی سے نیاز افطار تقسیم کی غلطی کر بیٹھا، وہ حالت تھی کہ خود پاس کھڑے لوگ کہنے پر مجبور تھے کہ

سارے کہ سارے پاکستانی کی کیا بنے گ ہمارا ۔۔۔۔

انکا نہ تو احترام سے تعلق نہ عبادت سے

تمام مقامات پر ہڑبونگ بد نظمی اور جہالت نظر ائے وہاں پاکستانی۔۔۔

مذاق اڑوانے کو صرف پاکستانی تعارف ہی کافی ہے۔

یہ تربیت ہم سب نے کرنی ہے اپنے ارد گرد والوں کی نئے آنیوالوں کی ۔۔۔۔
خدارا حج و عمرہ پر آنے سے پہلے ان جگہوں کی تعظیم سیکھیں۔

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِىِّ وَلَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْـتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی آواز نبیؐ کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ نبیؐ کے ساتھ اونچی آواز سے بات کیا کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہو جائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو

admin

http://fruit-chat.com

میری موج میری سوچ

2 Comments

  • Nice

  • جھکاؤ نظریں ادب کا اعلیٰ مقام آیا
    تمام پاکستانی مل کر جھوم جھوم کر پڑھتے ہیں شاید سمجھتے ہیں کہ زبان سے ادا کیے گئے الفاظ کا ہی ثواب ہے عمال کا کیا
    ہائے افسوس

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *