Educational System of Pakistan …The Dark side

Educational System of Pakistan

پاکستان کا تعلیمی نظام عرصہ پہلے اپنی سمت کھو چکا ہے، اور اسی وجہ سے مسلسل ملک بد سے بد ترین حالت کی طرف جا رہا ہے۔

عرصہ ہوا کوئی بڑا نام تعلیم یا سائنس میں پیدا کیا ہو۔

 کوئی ایک ایجاد کی ہو۔

 تنقیدی سوچ کب کی کھو بیٹھے ہیں۔اور دکھ کی بات یہ ہے کہ اب تک اس پہلو کی طرف نہ توکوئی توجہ دے سکا ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں امید ہے۔

پڑھے لکھے جاہل ہر طبقہ کے مفاد میں ہیں۔

Modern Recipe to Mental Slavery

سوال کرنا چھین لیا جاتا ہے، مسلسل مصروفیت، اور اجتماعی سرگرمیں میں مصروف رکھا  جاتا ہے،

 تنہائی پسند  ہونا باقاعدہ مسترد کیا جاتا ہے۔

الگ سوچنا گویا جرم۔۔

زندگی کی سادہ اور بنیادی چیزیں آزادی کا بھرم قائم رکھتی ہیں۔ 

اور انسان، انسان ہوتے ہوئے بھی سب سے قیمتی جوہر سوچ سے محروم رہتا ہے،اور یہ ہے۔۔۔۔

ذہنی غلامی کا جدید طریقہ کار

Psychological Triggers
نفسیاتی محرکات

نفسیات ایک پیچیدہ مضمون ہے۔اور وطن عزیز میں ایک بے کار اور کم اہمیت کا حامل شعبہ۔

موضوع حساس اور سنجیدہ نوعیت کا ہے اپنے طور پر مکمل کوشش کی ہے مستند اور سادہ حوالوں سے بات کروں لیکن بہتری کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے 

یہ جاننا کی ہمیں انہوں نے جو کہ ہمارے اپنے ہیں کس حال تک لے آئے ہیں ، بہت تکلیف دہ ہے.

اس مضمون کو پڑھنے سے قبل انسانی دماغ اور زہین کی بنیاد پڑھنا اور سمجھنا بہت ضروری ہے، باریک نقاط اگر سمجھ نہ سکیں تو سب الف لیلی کی کہانی لگے گی ، اور مضمون کا مقصد لا حاصل رہے گا۔

آزادی سوچ میں ہوتی ہے ۔

اور غلامی بھی

basic of human brain

کیا محرک تعلیمی ہو سکتا ہے؟

جی ہاں اور بد قسمتی سے ہم لوگ یہی ٹرگر اپنے ذہنوں میں لیے پھر رہے ہیں ، دن بہ دن بد تر حالت اسکی گواہ ہے ۔

پانچ منٹ بات نہیں کر سکتے ، سچ وہ ہم جانتے ہیں غیر سرکاری کتابوں کے نام نہیں دے سکتے، جاننے کی طلب نہیں ہاتھ مین ہنر نہیں،

اخلاقیات۔۔۔ نام بھی بھول گئے ہیں ۔

اور بدقسمتی سے ہمارا یہ حال ہماری ریاست نے کیا ہے۔

ہمارا تعلیمی نظام صرف ہمیں غلام رکھنے کے لیے ہماری سوچوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے

اس بات کا ہے جائزہ لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔

کیا ٹریگر کسی دوسرے کی مرضی سے ایکٹیویٹ ہو سکتا ہے ؟

بدقسمی سے ہاں

پاکستانی نصابی کتب کاذہین سازی کیلئےپہلا استمعال

خورشید کمال عزیز جو کہ پاکستان کے نامور تاریخ دان ہیں،اس بارے تفصیل کے ساتھ لکھتےہیں ۔

ایوب خان نے اپنے دور اقتدار میں تھوڑی مخالف سوچ بھانپ کر اسکا سدباب کرنے کے لئے درسی کتب کو چنا۔۔

ایوب خان نے 1969 میں پہلی مرتبہ اپنے بارے میں چند تعریفی الفاظ اردو کی کتب میں شامل کروائے

اقتدار ختم ہعتے ہی کتب سے تمام الفاظ نکال دئے گئے ۔*

Project Islamisation of Country

جنرل ضیاالحق کا دور وہ سیاہ دور ہے جس میں لگائے گئے بیج مسلسل اس وطن کو امربیل کی طرح چوس رہے ہیں،

جنرل صاحب کے اس شاندارکارنامہ نےہی پاکستان کے تعلیمی نظام کا رخ بدلا ہے۔

سب سے پہلے کتابیں نشانہ بنی۔

نئے مضامین داخل کئے گئے ۔ تاریخ خاص طور پر دوبارہ لکھی گئی ۔

تاریخ عرب کے دور جہالت کے ایک مضمون سے ہوتے ہوئے رسول ﷺاور

خلفا راشدین پر رکتی اور اس کے بعد مختصر طور پر چند اسلامی جنرل اور اس کے بعد ،مغل سلظنت کا باب مرتب ہوا ۔

ایک احساس محرومی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ،

اور باقاعدہ طور پر چند قوموں کے ساتھ مکار اور عیار جیسے لفظ جوڑ کرپڑھنے والوں کو متنفر کرنے کی کوشش کی گئی ۔

اس کے ساتھ ساتھ کلاس روم کا کنٹرول بھی استاد کے ہاتھ میں نہ رہنے دیا ۔

استاد کو اجازت نہ رہنے دی کہ کتاب کے علاوہ کوئی مضمون یا باب پڑھا سکے ۔

مطالعہ ہاکستان لانچ ہوئی ،کلاس کے انداز بدلے گئے۔

طلباء کا ذہن سختی کی طرف مائل کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی، سوال کرنے والے رویوں کی حوصلہ شکنی کی گئی۔

کسی بھی سچائی کے انکار اور موقف پر ڈٹ جانا اسی دور میں ڈیزائن کیا گیا ،سخت اور دلیل کے بغیر ڈٹ جانے والےنظریات پیدا کیے گئے ،

طالب علم کو سوال پوچھنے اور غور کرنے کی صلاحیت سے محروم کرنے کے لیےسلسلہ وار ہروگرام شروع کیا گیا۔*

سلیبس یا کتاب سے باہر نہیں پڑھانا 

؎ اسی دور میں کلاس روم میں داخل ہوا، استاد ایک سمندر ہوتا ہے ۔

اسکو صرف لکھی ہوئی کتاب تک محدود کر دیا گیا۔

یہاں کراچی کے ساحلوں پر بیٹھے ان سفیروں کی بحث اختتام پزیر ہوئی ،

کہ20 سال بعد کراچی اور نیو یارک میں سے کون زیادہ ترقی یافتہ ہو گا۔

یہاں اس دور کا اختتام ہوا ۔جسے آج تک پاکستان کا سنہری دور کہا جاتا تھا۔

یہاں وہ بیوروکریٹ اپنے جانشین نہ دے پائے جنہوں نےدنیا کے کئی ممالک کو فائل کھولنا سکھایا تھا۔

اس دور کے بعدکوئی اک ادارہ بھی سلامت نہ رہا ۔۔۔۔۔

کیونکہ اگلی آنے والی نسلیں آزاد نہیں غلام ہوں گی فیصلہ ہو گیا تھا.

یہی وجہ ہے ترقی یافتہ ملک اپنے بچوں کفالت میں سگھے ماں باپ کے حقوق بھی سلب کر لیتے ہیں

شدت پسندی اور تعلیم

“تعلیم انسان کی شدت پسندی کوکم کرتی ہے، لیکن نصابی کتابوں کا جائزہ لیں تو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ پاکستان کو مظلوم بنا کر پیش کیا گیا اور مغرب ، انڈیا اور مغربی پاکستان کو قصور وار ٹھہرایا گیا ،طالب علم کا سوال پوچھنا ترک کروایا گیا ،پڑھنے کے انداز بدل دیے گئے۔”

“پہلے خود مسخ تاریخ پڑھتے(استاد) پھر اسکی ترویج کرتے”

غیر مسلم ہیرو

تاریخ کو اس قدر مسخ کیا گیا کہ ہمارے کورس کی کتابوں سے تمام غیر مسلم ہیروز ختم کر دیے گئے ہیں.

1- آج سیسل چوہدری , 2- دینا ایم مستری , 3- جمشید کائیکوباداردشیر مارکر(ہلال امتیاز) , 4- جولیوس سالک (نامزدی برائے نوبل پرایز) , 5- جسٹس رانا بھگوان داس ، 6- جیفرے ڈی لینگلیبڈز , 7-ایلبرٹ ,8- سسٹر گیرٹروڈ (ستارہ قائداعظم) , 9- اقبال مسیحمیری ایمیل(ستارہ امتیاز) , 10- ولیم ڈیسمنڈ ہنری (ستارہ جرات) , جسٹس کارنیلیس جیسے عظیم لوگوں کا تعارف باقائدہ طور پر کسی تدریسی کتاب میں نہ کرکے معاشرہ کو مکمل طور پر ڈیزائنڈ کرنے کی کوشش کی گئی ۔ آج آپنے ارد گرد دیکھیں کتنے لوگ ایسے ہیں جو اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں اور اچھے عہدوں پر ہیں.

جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسی نے حالیہ دنوں میں ایک اقلیتی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے شخص کے کیس میں بھی ایسے ہی ریماکس دئیے۔

پرائمری کی کتابیں / پرائمر
(Educational Triggersٗ)

تعلیمی محرکات کو پرائمری کی کتابوں سے ہی آہستہ آہستہ ہماری سوچوں کا حصہ بنایا جاتا ہے،

اور ارتقا کے عمل کے دوران یہ ٹرگر اس طرح ہماری سوچ بن جاتے ہیں کہ ساری عمر انہی پر آگلی سوچ اور ردعمل ترتیب پاتے ہیں۔

Educational Triggers

پرائمری کی کتابیں سب سے اہم چیز ہیں ، لیکن درست طور پر سمجھنے کے لیے آخرمیں ان پر بات کریں گے،

انکو پرائمر بھی کہا جاتا ہے، یہی پرائمر لاشعور کی تربیت ،ٹرگر نصب کرنے،ذہین کو مفلوج کرنے کے کام آتے ہیں۔

چھوٹی جماعتوں میں تصاویر اور کھلونے اس ،مقصد کے لیے کام آتے ہیں۔

کلاس III میں پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابوں میں اسلام کو پڑھایا جاتا ہے کہ اسلام تمام مذاہب کے مقابلے میں سچا اور اعلی ہے .

اس وقت بچے کی عمر سات یا آٹھ سال ہوتی ہےیاد رہے اسلام کی بنیادی تعلیمات یا اسلامی احکامات کا ذکر تک نہیں ہوتا ، بےعمل رویئے یہاں سے پیدا ہوتے ہیں ۔اور قول و فعل میں تضاد یہیں سے بنیاد پکڑتا ہے۔

کلاس ۷۱ میں پڑھایا جاتا ہے کہ دوسرے مذاہب صرف کاروباری حد تک ایماندار ہیں اور ایماندار رہنا ان کی مجبوری ہے لیکن یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے ۔اور اس بات کو ہم سب جانتے ہیں کہ صرف الفاظی باتیں ہیں۔

آٹھویں کلاس میں سکھایا جاتا ہے کہ جہاد اگر آپ خود نہیں کر سکتے تو جہاد بالمال جہاد بالقلم اور ایمان کے تین درجے ، ظلم روکنا وغیرہ شامل ہیں ، لیکن ڈیزائنڈ تدریسی عمل اس بات کا ضامن ہے کی ایسا ہونے نہ پائے ۔

آٹھویں کلاس میں اردو کی کتاب میں لکھا ہے کہ بہتر مسلمان ہی بہتر بشر بن سکتا ہے۔ یہاں بہتر مسلمان کے کردار علم دوستی اور دیگر جدید علوم کا نام تک سننے نہیں دیا جاتا ۔

دسویں کلاس میں اسلامیات ،کی کتاب میں دو سورتیں شامل کی گئیں جو ہم  پڑھتے ہیں یاد کر تے ہیں ترجمہ کے ساتھ ۔

دونوں سورتوں کا نام ہے سورۃ توبہ اور سورہ انفال قرآن پاک کی تمام سورتوں میں سےصرف یہ دو سورتیں سورۃ توبہ جس میں جہاد/ قتال کے متعلق آیات ہیں اور سورہ انفال جو مال غنیمت ہجرت اور جہاد کے متعلق ہے ۔

شہید زندہ ہے ، شہادت کی موت کا پرکشش تصور پیدا کیا جاتا ہے ۔۔۔

کیا ہم سمجھتے ہیں لفظ ہندو اور یہودی کے کے ساتھ عیار، چالاک اور اس جیسے دوسرے الفاظ بغیر سوچے سمجھےلکھ دئے ہیں۔

ضرور لکھے یا پوشیدہ الفاظ میں باور کروانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

وقتی طور پر یہ چیزیں کچھ محسوس نہیں ہو رہی لیکن جب لڑی میں پرو کر جائزہ لیں ، خاموش ہو جایئں گے

اب یہاں رکیے ۔۔۔

گہرا سانس لیں ، جو جذباتی حالت ، زیادہ تر پڑھنے والوں کی ہے،

میں بھی اس سے گزرا ہوں اور شاید بہت شدید ، لیکن ہمارے مذہبی جذبات کو ابھارنا اور استعمال کرنا سب سے آسان ہے۔

اور وہ کہ جو اس کے تخلیق کار ہیں یہی چاہتے ہیں ۔

The ultimate Product

اگر ان تمام جماعتوں میں 5فیصد بھی ان باتوں پر عمل کیا جاے شائد معاملہ کچھ بہتر ہو ۔

جس وقت طلبا کے زہین میں نرم رویئےاور لچک پیدا کی جانی تھی وہاں اک احساس کہ ہم سب سے برتر ہیں ۔اور ہماری حالت کے زمہ دار اغیار ہیں

حوالہ جات

سینٹ آف پاکستان میں اعتراف

مارچ2016میں ہونے والےسینٹ کے اجلاس میں چیئرمین رض ربانی کےیہ الفاظ تاریخ کا حصہ ہیں ،کہ ہمارے نصابی کتابیں طلباء کو جمہوریت سے زیادہ ڈکٹیٹر شپ کے فوائد پڑھاتی ہیں ۔

آپ کی معلومات میں اضافے کے لیے بتاتا چلوں کہ اس کا اس اجلاس میں نکتہ بحث ، جس پر یہ ریماکس دیے گئے۔

پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی بارہویں جماعت کی سوشیالوجی کی کتاب میں بلوچوں کو غیر تہذیب یافتہ اور لوٹ مار کرنے والے اور قتل و غارت کرنے والے قاتلوں کے طور پر تحریر جانا تھا

سب جانتے ہوئے کیوں اپذیٹ نہیں کرتے

آزاد سوچ انکی بلا شرکت غیرے حکومت کی دشمن ہے

https://www.dawn.com/news

پاکستان کے 40% فیصد بچے ،غزائی قلت کی وجہ سے دماغ کی نشورنما نہ ہونے کی وجہ سے ذہانت کی ریس ہار جاتے ہیں ،

(تفصیل کی لیے پڑھیے پاکستان کا مستقبل)

Wasington Post 

From U.S, the ABC’s of Jihad

Joe Stephens and David B. Ottaway ,March 200

واشنگٹن پوسٹ کے اس مضمون میں امتہائی تفصیل کے ساتھ پاک افضاب جہاد کے متعلق بتایا، کہ کس طرح ان لوگوں صدیوں تک کے لیے جنگجوق تیار کئے۔

دری اور پشتو کی غالب افغان زبانوں میں شائع ہونے والی، نصابی کتب 1980 کی دہائی کے اوائل میں نبراسکا اوماہا یونیورسٹی اور اس کے سنٹر فار افغانستان اسٹڈیز کو امدادی گرانٹ کے تحت تیار کی گئیں۔ ایجنسی نے 1984 سے 1994 تک افغانستان میں یونیورسٹی کے تعلیمی پروگراموں پر 51 ملین ڈالر خرچ کیے۔

سوویت قبضے کے دوران، افغانستان میں علاقائی فوجی رہنماؤں نے امریکہ کو کتابیں ملک میں سمگل کرنے میں مدد کی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ پرائمر میں سوویت مخالف اقتباسات ہوں۔ ایجنسی کے اہلکاروں نے بتایا کہ بچوں کو ٹینکوں، میزائلوں اور بارودی سرنگوں کی تصویروں کے ساتھ شمار کرنا سکھایا گیا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ اس وقت یہ غیر ملکی حملہ آوروں سے نفرت کو ہوا دینے کے لیے امریکی مفادات کے لیے موزوں تھا

پرائمر، جو جہاد کی باتوں سے بھرے ہوئے تھے اور جن میں بندوقوں، گولیوں، فوجیوں اور بارودی سرنگوں کی تصویریں تھیں، اس وقت سے افغان سکول سسٹم کے بنیادی نصاب کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ طالبان نے بھی امریکی تیار کردہ کتابوں کا استعمال کیا، حلانکه بنیاد پرست تحریک نے اپنے سخت بنیاد پرستی کے ضابطے کو مدنظر رکھتے ہوئے انسانی چہروں کو نوچ ڈالا

طالبان کے دور میں، سنسر نے کتابوں سے انسانی تصاویر کو صاف کر دیا۔ اس دور کی تحریروں کے ایک صفحے پر ایک مزاحمتی جنگجو کو دکھایا گیا ہے جس کے کندھے سے ایک کلاشنکوف لٹکی ہوئی ہےسپاہی کا سر غائب ہے

سپاہی کے اوپر قرآن کی ایک آیت ہے۔ ذیل میں ان مجاہدین کو پشتو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے، جنہیں اللہ کا فرمانبردار قرار دیا گیا ہے۔ متن میں کہا گیا ہے کہ ایسے لوگ حکومت پر اسلامی قانون نافذ کرنے کے لیے اپنے مال اور جان کی قربانی دیں گے. 

افغان کیوں خون میں ڈوبے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔

یونیسف کے پاس پرانی “ملٹریائزڈ” کتابوں کی 500,000 کاپیاں باقی ہیں، جو کہ 200,000 ڈالر کی سرمایہ کاری ہے جسے اس نے تباہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اقوام متحدہ

پاکستان میں پچھلے ہفتے خریدے گئے ریاضی کے پرائمر میں ملنے والی بارودی سرنگوں اور چاقو کی تصویریں، AID کی طرف سے افغانوں کو دی گئی پرانی اسکول کی کتابوں میں پائی جانے والی ڈرائنگ سے ملتی جلتی ہیں۔

سوچنا منع ہے

پرائمر مشن 1994 بند کیا گیاتھا، قبل ازیں کتابیں پاکستان میں چھپتی رہی اور پاکستان حکومت کی مددسے افغانستان بیجی جاتی رہی ۔

پانچ لاکھ کتابیں 2002 تک صرف اس لئے سنبھال کر رکھی گئی تاکہ تلف کی جائیں ۔۔۔۔۔

ہم سب کے علم میں ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں اور افغانستان میں تعلیم اور صحت کے بہت سے منصوبے اور کتابیں یونیسیف اور یو ایس ایڈ کےذریعے چلائے جاتے رہیے ہیں ۔

 

پرائمر کی طاقت کتنی یے؟

US AID سینٹرل ایشیا ٹاسک فورس کے لیے کتاب پر نظرثانی کے سربراہ کریس براون نے کہا ۔۔

“مجھے لگتا ہے کہ ہم ان کتابوں کو سوویت یونین کو کچرے میں ڈالتے ہوئے دیکھ کر بالکل خوش تھے”

“افغانوں کے قدرتی جنگجو ہونے کی مستقل تصویر غلط ہے۔ جنگجو پیدا ہوتے ہیں۔ اگر آپ ایک مختلف قسم کا معاشرہ چاہتے ہیں تو آپ کو اسے بنانا ہوگا۔” ڈوگ پرچرڈ

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ان پرائمرکی موجودگی اور پچھلے سال کی وہ خبر تو شاید کسی کو یاد بھی نہ ہو،کیوں ہو ، جومین سٹریم میڈیا میں جگہ بھی نہ بنا پائی تھی کہ پاکستان کے مدارس اور قبائلی علاقوں میں دوبارہ سے وہ کتابیں جو جہاد کے اس دور میں وہاں پر پھیلائی گئی تھی,مدارس میں پڑھائی جا رہی ہیں اور ضبط کی ہیں۔

کیا اب بھی یہ طریقہ کار قابل عمل ہے؟

اس پالیسی کو سب سے بہتر کنہار افغانستان میں لاگو کر کے isis ایک سکول چلاتی رہی ہے۔

لیکن وہاں زیادہ اور جلدی نتائج کے لیے حسب ضرورت بہتری سلیبس کو مزید جارحانی کیا گیا ہے ۔ الجزیرہ اس پر ایک ڈاکیومنٹری بھی بنا چکا ہے ۔

کیا ہے ان کتابوں ؟

ان کتابوں میں گنتی شروع ہوتی ہے

ایک میزائل دو ٹینک تین بارودی سرنگیں الف سے اللہ ج سے جہاد, شین سے شہید یہ وہ بیج ہیں ، 

Educational Triggers

 جو وقت آنے پر تناور درخت بن جاتے ہیں.

اب اسی طرح تمام چھٹی, ساتویں, آٹھویں, نویں اور دسویں تک سوره توبه اور سوره انفال تک ایک لائن سے دیکھیں آپ کو پتہ چلے گا کہ ہماری شخصیت وہ کس طرح ایک ڈبے میں بند کر کے اسلامک شدت پسندی کی طرف موڑا جاتا رہا ہے ۔

اسلام برائے نام اور اسلام کے نام پر قتل عام کو تیار معاشرہ اسی پراجیکٹ کی دین ہے ۔

یہ پراجیکٹ اور اس سے ملتے جلتے پراجیکٹ آج بھی دنیا کے کئی ملکوں میں رائج ہیں ۔اور اس نوعیت کا نتیجہ بھی لا رہئ ہیں۔

 بد قسمتی سے افغان جہاد کے بعد آنے والے کسی بھی حکمران نے ان بارودی سرنگوں کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی ۔ پاکستان کی درسی کتب کو جانتے بوجھتے اسی طرح رینے دیا کیونکہ یہ نظریات میں سخت اورسوال کرنے اور معاملات کی حقیقت جاننے کی کوشش کیے بغیر پیروی کریں ۔

چیدہ چیدہ تبدیلیاں ضرور کی گئی ،جو کہ بدلتی ٹیکنالوجی کے متعلق تھیں۔

بہتری کے راستے کی مشکلات

پاکستان تحریک انصاف اور درسی کتب

تحریک انصاٖف پر جہاں بہت سی باتوں پر تنقیدکی گئی،ان میں تعلیمی پالیسی بھی شامل ہے۔

جنرل ضیاالحق کے بعد پہلی دفعہ کسی سیاسی پارٹی نے نصاب بدلنے کی بات کی۔

 پاکستان تحریک انصاف نصاب کی تبدیلی کا مطالبہ 2006  سے کرتی رہی  ہے ،

 لیکن وہ تمام لوگ جونصاب مرتب کر رہے ہیں وہ خود بھی تواسی جنرل ضیاء الحق کی اسلامائزیشن آف کنٹری پروجیکٹ کے بعد پروان چھڑھنے والی نسل ہیں،ایک متوازن اور پروگیریسو نصاب ترتیب دیں سکتے ؟

 پاکستان نظام تعلیم کے بارے میں اسقدر خطرناک موڑپر پہنچ چکا ہے کہ جس پہلو پر بھی توجہ کریں،سامنے اک گہری کھائی سے حالات ہیں۔ 

educational triger for warriors

مدرسہ اور روائتی تعلیم میں خلیج

خلیل احمد لکھتے ہیں۔۔

     “۔ انہوں نے (عمران خان) جس چیز کی طرف اشارہ کیا وہ یہ تھا کہ “آزاد” خواتین جو زیادہ حقوق چاہتی ہیں

 وہ “مغربی تعلیم یافتہ” ہیں اور معاشرتی تقسیم کی ذمہ دار ہیں کہ ان کی حکومت “یکساں نظام تعلیم” اپنا کر ختم کرے گی۔ 

 ان کے تبصرے سے واضح نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اردو اور انگلش میڈیم کی تعلیم کو ملک 

میں کام کرنے والے مدارس یا دینی مدارس کے ساتھ “ضم” کرنا چاہیں گے:

 وہ اردو میڈیم میں انتہا پسند مذہبی نظریاتی مواد کی چھان پھٹک کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔  

مدرسہ سیکٹر نے انگلش میڈیم سیکٹر کے “لبرل” پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے….

 پاکستان کے تعلیمی نظام نے مسلسل اس “لبرل ازم” کی مخالفت کی ہے کہ بڑھتی ہوئی مڈل کلاس ,

اپنے بچوں کو انگلش میڈیم سیکٹر میں اپنانے کی اجازت دیتی ہے۔ 

 وہ وقت جب خان اپنے “جدید” مخالفین پر “لبرل فاشزم” کا الزام لگاتے تھے۔ 

لیکن کوئی بھی نظریاتی طور پر مائل اردو میڈیم اور مدارس کے شعبوں میں پروان چڑھنے والی انتہا پسندی سے نمٹنے کے بارے میں نہیں سوچتا……

پاکستان کی کم عقلی کو دیکھتے ہوئے،عمران خان کے تحت تعلیمی اصلاحات کا منصوبہ بوکو حرام بننے کے خطرے کو چلاتا ہے – جس کا لفظی ترجمہ ہوتا ہے “مغربی تعلیم حرام ہے”…

 ریاستی شعبے کے اسکولوں میں ذہن کی یکسانیت ایک طرح کی تیاری ہے۔  خالص مدرسہ کی طرف سے حتمی قبضے – یوٹوپیا پاکستان کی خواہش ہے۔  

 آج، پاکستان اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے فکری طور پر تیار نہیں ہے جو اس نے خود کو پیش کیا ہے۔  

.پاکستان تنہائی پسندی کے مرجھائے ہوئے عمل سے گزر رہا ہے، *

ہم نے اب بھی راستہ نہیں بدلا

پرویز ہودبھائی نے تنقیدی آرٹیکل لکھا مختصر نکات ذیل ہیں ۔۔۔۔۔

جو نعرہ پہلی نظر میں سادہ اور کشش رکھتا ہے حقیقت میں بہت مشکل اور بہت سے لوگوں کے لیے ،یہ ایک بہت خطرناک چیز ہے ،

لیکن اس اخلاقی طور پر پرکشش آئیڈیا کو ان دوراندیش لوگوں نے ہائی جیک کر لیا بگاڑ دیا، مسخ کر دیا اور شکل سے باہر کر دیا جو اب پاکستان کا مستقبل اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں اور جو اپنے باس کی طرح(ضیاءالحق)    دو بڑے مدارس کے نظاموں  تنظیم المدارس اور ربط المدارس کے ساتھ کالم بہ کالم موازنہ ایک چونکا دینے والی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے۔ 

عام اسکول اب ان مدارس سے بھی زیادہ روٹ لرننگ نافذ کریں گے۔  

 یکساں قومی نصاب کا خیال تین غلط مفروضوں سے اخذ کرتا ہے:

پہلا: پاکستان کے مختلف تعلیمی سلسلوں کے درمیان معیار کا فرق مختلف نصاب پر عمل کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔  

دوسرا: تقویٰ کی بھاری مقدار ایچی سن کالج اور آپ کے پڑوس کے اسکول کے طلباء کے برابر ہوجائے گی۔

تیسرا: جدید دنیا سے تعلق رکھنے والے اسکولوں کے نظام کو مدارس کی طرح ایک ہی صفحہ پر لایا جاسکتا ہے۔

طلباء کے بارے میں “انہوں نے کتابیں پڑھنا چھوڑ دی ہیں۔ 

مھسن داوڑ کا آدھا سچ

مکمل بات یہ ہیکہ آج پورا پاکستان اس کی زد میں ہے۔

ٹرگر کو پنپنے کے لیے ماحول

نفسیاتی محرک جو لفظوں کی شکل میں سوچوں بودیئےجاتے ہیں۔

انکو تناور درخت بننے کے لیے ایک خاص قسم کا ماحول درکار ہوتا ہے جس میں دماغ کو سخت ، انکار پر تکرار اور سامنے موجود سچایئوں پر انکار کے لیے مختلف سائینسی طریقہ کاربروئے کار لایا جاتا ہے۔

اس امر کو یقیئنی بنا یا جاتا ہیکہ ہر بیج پھوٹے اور وہ جو کہ دور اندیش اور اس سسٹم کے بینفشری ہیں،

ان کے ایک اشارے پر عمل پیرا رہیں ۔

یہ تکنیکیں اپنے آپ میں ایک الگ موضوع ہے اس لیئے انکے لیے الگ باب مرتب کیا جا رہے گا ۔   ،

TOLLS TO RULE THE FOOLS

Infobesity

Eco chamber

Filter Bubble

Illusionary truth effect

illusion of validity

illusory correlation

bandwagon effect

چند عام سی لگنے والی چیزیں

چند سادہ مثالیں ذیل ہیں ۔۔۔۔

ملک بھوکا مرے یا ڈوبے  ، ایک مخصوص وقت پر ملی نغمے ۔

۔جنگی ڈرامے ،الفا براو چارلی ، میجر عزیز بھٹی وغیرہ

 آج بھی تقریبا ہر نوجوان دل میں فوج میں بھرتی ہونے کی خواہش لے کر پیدا ہوتاہے۔

 ہر شہر میں میزائلوں اور جنگی سامان کے ماڈل

مسلسل ملی نغمےاورترانے۔۔۔۔۔۔۔

ہر دوسرے چوک میں جنگی سازو سامان کی نمائش

ہر دفعہ سالار اعظم کی تبدیلی پر باقاعدہ امیج بلڈنگ کیمپین 

شہادت  کو موت پر برتر خیال کروانا

آرتگل غازی اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس

تاریخی کی کتابیں بھری پڑی ہیں ، بدنیتی کی داستانوں سے

پڑھتے جائیں اور شرماتے جائیں ،چیدہ چیدہ معاملات آپ کی نظر کرتا جاتا ہوں۔۔

.جیسے سائنس فکشن کے دور میں آج بھی پاکستان میں ڈرامہ ارتگل پوری تیاری اور زور و شور کے ساتھ دکھایا گیا

دوبارہ تلوار کے دور کے معاملات جو آج کے دور میں کسی نئی سوچ وتخلیق کو پیدا نہیں کرتے یورپی یونین آرٹیفیشل انٹیلیجنس پر قانون سازی کر رہی ہے ،نئی دنیا تخلیق ہو رہی ہے اور ہم آج تک نئی کتابیں نہیں لا سکے۔

.کیا آج بھی ہمارے دماغوں میں تعلیمی ٹریگر لگاۓجا رہیے ہیں

جو قوم پہلے ہی بند دماغ لئے ہے ، اسے نئے زمانے کی باتیں کیوں نہیں سکھاتے۔

تازہ حالیہ واقعہ سے سمجھنا آسان ہو گا۔

 حال ہی میں یکے بعد دیگرے مبینہ طور پر  دو وزراعظم کو تھپڑ مارےجانے کے واقعآت کی افواہ پھیلی، تمام ذہنی غلام ایک دوسرے پر 

تپھڑ کھانے کا الزام دیتے رہے ، لیکن کسی نے بھی تھپڑ مارنے والے کے خلاف زبان تک نہ کھولی ۔ 

مقدس تقدس کی گردان کرتے لوگ کس طرح کھیل رہے ہیں نفسیا ت سے قابل شرم ہے ۔   

جاری ہے

نسلوں کی غلامی برقراررکھنے کے لیے کیسے  جدید طریقہ کار کا استعمال ہوتا ہے ۔۔۔ 

 جڑے رہیے۔۔۔۔

قیمتی رائے سے آگاہ کیجیے۔شکریہ

admin

http://fruit-chat.com

میری موج میری سوچ

1 Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *