غدار کیوں پیدا ہوتے ہیں؟
اپنے ذاتی مفاد کے لیے،اپنے گروہ برادری یا ملک کا مفاد قربان کر دینا، ملک یا برادری کا نقصان کر دینا فروخت کر دینا غداری کہلاتا ہے۔
معاشرہ اور غدار
پورا معاشرہ بحثیت مجموعی غداری کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، لیکن یہ بات بھی عین حقیقت ہیکہ انہی نفرت کی نظر دیکھنے والوں میں وقتا فوقتا نیا غدار پید ہو جاتا ہے ۔
آخر کیوں ؟
مدینہ کی ریاست کے قیام کے بعد جب مسلمان اسلام کو پھیلانے کے لیے عرب کے صحراوں سے باہر نکلے۔
تو بے سرو سامانی کے عالم میں کم تر ہتھیار لیکن دنیا پر چھا گئے۔ انکا جوش اور جذبہ بڑے بڑے ایمپائر لرزانے کو کافی تھا۔
بڑی سے بڑی سلطنت انکے سامنے نہ ٹک پائی۔
اگر جنگ کو جنگ کی طرح دیکھیں۔۔۔۔
جنگ میں فتح و شکست کی قیمت ہوتی ہے بہت بڑی قیمت، انسانی جانیں، املاک کی تباہی، اجناس اور فصلوں کی بربادی، تجارت و صنعت کی تباہی ۔
مسلمانوں کو فتح کے ساتھ کئی جنگوں میں شکست بھی ہوئی۔
کئی جنگوں میں ایسا بھی ہوا کہ جو فوج روانہ ہوئی محاذ پر محاذ فتح کرتے پوری فوج کھیت رہی۔
جو فوجی مرتے ہیں انکے خاندان بھی ہوتے تھے۔
انکے بچے بیٹے بیٹیاں گھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلامی تاریخ میں کہیں ان جنگوں میں شہید ہونے والوں کی بیوائیں بچے آہ و فگاں کرتے نظر نہں آتے۔
کہیں پر بھی ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے نہیں ہوئے۔
مال غنیمت کو دیکھیں تو سخت گیر خلیفہ اک کپڑے کا ٹکڑا تک اضافی نہ دیتا تھا۔
جو جسکا جتنا حق اسکو ملتا تھا۔
خلافت موقوف ہوتے ہیں ۔
آمریت کی داغ بیل رکھی گئی، آمریت خواہ جتنی بھی اچھی ہو فرد واحد کی حکومت اور اسی کے مفادات اور اختیارات مقدم۔
جبکہ خلافت اور جمہوریت میں یہ قدر مشترک ہیکہ خلیفہ یا حکمران جس قدر بھی طاقتور ہو,
عوام کے حقوق کا نگہبان, لوگوں کی املاک کا محافظ اور ایک نظام عدل کے سامنے جوابدہ۔۔
سراجالدولہ کو اسکی پیدائش سے ہی خوش نصیب بچہ کہا جاتا تھا۔ سراج کے تخت نشین ہونے میں اسکی کسی قابل قدر ذہانت یا کوئی ایسا عمل ذمہ دار نہ تھا کہ جس سے بنگال کو بیش بہا فائدہ حاصل ہوا۔
سراجالدولہ اپنے داد کا لاڈلا تھا اور یہی لاڈ سراج کے تخت نشین ہونے میں قابل قدر خوبی تھی۔
سراجالدولہ کو اس کے دادا علی وردی خان نے اپنی زندگی میں ہی تخت کا وارث قرار دے دیا تھا۔
اور دادا کی وفات کے فوری بعد اس دور میں عام طور پر تقریبا ہر تخت نشینی کی طرح ہونے والی برائے نام رسہ کشی کے بعد سراجالدولہ تقریبا 23 سال کی عمر میں تخت نشین ہو گیا۔
اس کی تخت نشینی میں مخالف گروہ جو کہ اس کے ایک دوسرے رشتہ دار کو تخت پر بیٹھانا چاہتے تھے ان میں مہرالنسا بیگم (گسیٹی بیگم) میر جعفر وغیرہ شامل تھے۔
مہر النسا بیگم کی کوئی اولاد نہ تھی تاہم اپنے میاں کی چھوڑی دولت کے سبب قابل ذکر حد تک صاحب ثروت تھی۔
سراجالدولہ نے تخت نشین ہوتے ہی عورت جانکر مہر النسا بیگم کی ساری دولت اور جائیداد ضبط کر لی اور میر جعفر سمیت باقی طاقتور درباریوں کی ریشہ دانیوں سے طاقت کم کرنے میں لگا رہا۔
بد اعتمادی کا یہ عالم تھا کہ میر جعفر جب کبھی کسی معاملہ میں سراجالدولہ کو ملنے جاتا۔
تو واپسی تک ایک غیر یقینی کی فضا رہتی کہ میر جعفر جو کہ سپہ سالار افواج بنگال تھا، واپس اتا ہے یا اس کی موت کی خبر ۔۔۔۔
میر جعفر اپنی بقا کے لیے پریشان نت نئے منصوبے سوچنے میں مصروف رہتا، اور سراجالدولہ میر جعفر کو راستے سے ہٹانے کی۔
اس ماحول اور اس درجہ عدم اعتماد کے ساتھ جنگ میں جانا اور اسی سپہ سالار کے ساتھ جانا سراجالدولہ کی وہ غلطی تھی جس نے اس کی شکست جنگ شروع ہونے سے قبل ہی یقینی بنا دی تھی۔
مہرالنسا بیگم کی جائیداد اور مال و زر ضبط کر کے اپنے سامنے کسی اصول ضابطہ کی اہمیت کا نہ ہونا سراجالدولہ نے طے کر دیا تھا۔
اپنے مال اور جان کے مستقبل کی غیر یقینی صورتحال نے ہی میر جعفر کو انگریزوں سے ہاتھ ملا کر اپنی بقا یقینی بنانے پر مجور کیا۔
یہاں ریاست کی تعریف یاد رکھنی چاہیے۔
ریاست ہوتی کیا ہے؟
ریاست بنتی کیوں ہے؟
ریاست کے بنیادی جز کیا ہیں؟
غدار پیدا گیر معاشروں اور ملکوں کا موازنہ کریں تو ایک بات جو آتی سے سمجھ آتی ہے۔
جن ملکوں میں غدار پیدا نہیں ہوتے فرد اپنی جان تک وار دیتے ہیں،اور ریاست کے ساتھ مخلص رہتے ہیں ۔
وہاں نظام عدل اپنی پوری روح کے ساتھ رائج ہے۔
وہاں ریاستی رٹ تب قائم کرنے کو اگے بڑھتی ہے،جب کسی کمزور اور مظلوم پر ظلم ہوتا ہے حق تلفی ہوتی ہے۔
غدار پیدا گیر ملکوں میں لوگ ریاست سے محبت نہیں کرتے ، خوف کھاتے ہیں۔
وہاں نظام عدل برائے نام ہے یا بالکل نہیں ہے۔
لوگوں کا معیار زندگی دو حصوں اور کئی میں تین حصوں میں تقسیم ہے۔
ایک مسلسل غیر یقینی کی صورتحال اور آنے والے کل کی بابت ہر وقت اک بے نامی پریشانی۔
خوف انسانیت کی بقا کا ضامن ہے۔
خوف ہی ہے جس نے پتھر سے بنے پہلے تیر سے ایٹم بم تک بنا ڈالا۔
خوف ہی ہے جو انسان کو اگے بڑھتے رہنے اور بہتر سے بہتریں کی طرف رواں دواں رکھتا ہے۔
خوف ترقی اور اگے بڑھتے رہنے کا کلیہ ہے۔
لیکن یہی خوف جب اپنی ریاست سے پید اہو جائے۔
ہیی خوف اپنے گھر کا اور اپنی مال اولاد کے تحفظ کا ہو
ریاست جو تحفظ کرنے والی ہے سب سے زیادہ اسی سے خوف رہنے لگے، ہر مظلوم کو انصاف کی امید ریاست کی بجائے روز قیامت اللہ می عدالت ڈے ہو۔
تو پھر ہر انسان وہی کرتا ہے جو میر جعفر نے کیا،جو ہم میں سے ہر شخص موقع ملتے ہی امریکہ کا ویزہ ملنے کی امید میں ساری محب وطنی بھول کر کرتا ہے۔
غداری۔