انسپکٹر ریاض عباس

پولیس اور ابلاغ کے لیےانسپکڑ ریاض عباس کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔

انسپکٹر ریاض عباس ان پرانی فلمی کہانیوں کا جیتا جاگتا کردار ہیں جن میں تھانیدار کے آنے کی اطلاع سن کر جرائم پیشہ بھاگتے ہوئے گھروں کو تالے لگانا بھی بھول جاتے ہیں۔

ٹرینڈ سیٹر سخت سے سخت ٹارگٹ کو مسکراتے چہرے کے ساتھ اخبار کی اک خبر بنا دیا۔

آج بھی زوال کی بدترین حالت میں کوئی بھی جرائم پیشہ انکے سامنے کھڑا ہونے کی جرات نہیں کر سکتا۔

تھانہ اقبال ٹاون لاہور میں 2008 میں بطور ایس ایچ او تعیناتی کے دوران ان پر ٹاگٹڈ خودکش حملہ ہوا، جس میں موت چند ساعتوں سے زندگی کو موقع دے گئی۔

کڑوڑوں روپوں کی واردات ٹریس کرنے پر انکو تاجر برادری نے سونے کا تاج پہنایا۔

اور یہ سب کچھ انکی ذاتی محنت لگن سوچ ذہانت کا نتیجہ تھا۔

حالات نے کروٹ بدلی ۔۔۔

نئی سوچ اور نئے نظام میں پرانے ریاض عباس کے لیے جگہ تنگ پڑنے لگی۔

نیا ایس ایچ او

ایس ایچ او کی تعریف بدل گئی

ایک وقت میں ایس ایچ او وہ بہترین تھا، جس کی گرج شیر کی ہو، آنکھ میں عقابی لپک ہو کہ زبان سے لفظ نکلے سے پہلے بد کردار کا پتہ پانی ہو جائے۔

کامیابی کا پیمانہ بد قماش بد کردار علاقہ سے کتنے ضلع دور جا کر دم لیتے ہیں ۔۔۔۔۔

ایس ایچ او کے لیے نئی خوبیاں ترتیب پا گئی، نرم خو مسکراہٹ لیے ہر آنے والے کو چائے پلانے والا اوراگر کوئی جرائم پیشہ تھانہ میں بھی آجائے تو برداشت کا مظاہرہ کرنے والا ہونا چاہئے۔

ریاض عباس اور انکے دور کے دبنگ افسران کے لیے تیزی سے بدلتے تقاضوں کے ساتھ خود کو بدلنا بہرحال مشکل ثابت ہوا۔

بڑے لوگوں کو چھوٹے خول میں کیسے بند کیا جا سکتا ہے۔

قصور میں اک بچی زینب کو ایک درندہ صفت شخص نے زیادتی کے بعد قتل کر دیا۔

ظلم اتنا بڑا تھا کہ پورے ملک میں بیک وقت اس بچی پر ہونے والے ظلم کو محسوس کیا گیا۔

پنجاب پولیس اسوقت کے وزیراعلی شہباز شریف ، پنجاب فرانزک اتھارٹی اور تمام لوگ جو اس کیس کی تفتیش میں شامل تھے ، دن رات ایک کر کے آخر ملزم کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئے اور قومی جذبے کے ساتھ سزا بھی دلوائی۔

زینب قتل کیس اتنی محنت کے باوجود سوسائٹی اور نظام عدل کے ماتھے کا سیاہ دھبہ ہے، اگر یہ معاشرہ زندہ لوگوں کا ہوتا، انسانیت نام کو بھی ہوتی،یا زینب کے بعد آنے والی زینبوں کا سوچا جاتا، تو زینب کے بعد کسی کو جرات نہ ہوتی کسی ننھی کلی کو زینب بنانے کی۔

زینب قتل کیس قصور

زینب قتل کی تفیش کے دوران ملزم کا ڈی این اے ایمان نام کی ایک اور بچی کے ذیادتی اور قتل کے جرم کے ساتھ میچ کر گیا۔

ریاض عباس صاحب سی آئی اے قصور میں تعینات تھا۔

اور ایمان کیس میں ایک مدثر نامی ملزم کے پولیس انکاونٹر میں ہلاک ہونے کے ذمہ دارانسپکٹر ریاض عباس قرار پائے، ڈی پی او آفس سے گرفتار کر لیے گئے۔

انکوائری

انکے خلاف ہونے والی انکوائری میں پنجاب ہولیس کے منجھے ہوئے اور فیلڈ ورک کی سمجھ رکھنے والے نامور افسران سہیل اختر سکھیرا، لیاقت حسین اور ڈی ایس پی حامد حسین باجوہ صاحب شامل تھے ۔

انکوائری میں گنہگار قرار پائے گئےاور اک لمہہ میں تخت نشین سے پابند سلاسل ہوئے، ساتھ آئے حفاظتی اہلکاروں نے سلوٹ کرنے والے ہاتھوں سے ہتھکڑیاں پہنا دی۔

پولیس افسری کی مثال قرار دیئے جانے والا عبرت کی مثال قرار دیا جانے لگا۔

کہانی کا اگلا موڑ اس سے بھی تکلیف دہ اور شائد ریاض عباس کا نوحہ ہے

kasur police arrested riaz abbas.

اسی شہر لاہور میں ریاض عباس اور اس کے گن مینوں پر اسلحہ رکھنے اور ہوائی فائرنگ کا پرچہ دے دیا گیا۔

خصوصی مہربانی کرتے ہوئے چور اچکوں اور اٹھائی گیروں کی طرح میز کے پیچھے کھڑا کر کے تصویر اتار کے وائرل کی گئی۔

صاحبان حال بتاتے ہیں ریاض عباس صاحب قصورکے واقعہ کے بعد ٹوٹ گئے ، 

ریاض عباس جسکی نظر کی کاٹ کی تاب کوئی نہ لاتا تھا اپنے آپکو ٹکرے ٹکرے بھکرنے سے بچانے میں لگا تھا۔

ریاض عباس شہرت ناموری اور طاقت کی اس معراج سے سر کے بل گرے کہ اپنی مثال آپ بنے،

دوران تحریر اک ویڈیو میں اپنی عظمت رفتہ کے ٹوٹے ٹکڑے چننے کوشش میں انکا لب و لہجا اور حالت دیکھ کر آنکھیں بھر آئیں، عروج کے بعد اس زوال میں جی پانا شائد پوری زندگی کی جمع مشکلات سے بھاری ہے۔

آخر کیوں ؟

فروٹ چاٹ کی نظر سے دیکھیں تو ریاض عباس کی محکمانہ زندگی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

پہلا حصہ:

پہلا حصہ اک ایسے جوان ریاض عباس کا حصہ ہے جس نے دنیا کو ٹھوکر میں رکھ کر دن رات ایک کر کے اپنا آپ منوایا، نئے سے نئے ٹرینڈ متعارف کروائے،نت نئی تفتیشی تکنیکوں سے ملزمان میں دھاک بٹھ دی ۔

اپنی مستقل مزاجی عزم اور حوصلے سے ایک معمولی پولیس والے کو ریاض عباس میں بدل دیا۔

دوسرا حصہ:

دوسرا حصہ طاقتور ریاض عباس کا حصہ ہے،جس طرف کا رخ کرے اٹھے سر جھک جائیں، قدم کی دھمک سیاہ دلوں کو مرتعش کر دے۔

یہاں سوسائٹی اور محکمہ کی ذمہ داری تھی ریاض عباس کو خود ریاض عباس سے بچاتی۔

شہرت ناموری طاقت ہمیشہ رہنے کا بھرم لیکر آتے ہیں۔

یہ وقت ریاض عباس کو محفوظ کرنے کا وقت تھا۔

ریاض عباس سکول آف انٹیلی جنس بنایا جاتا۔

ریاض عباس ٹیکنیس آف انوسٹی گیشن پر کام ہوتا۔

نئی سوچ کے لیے پرانے وقتوں کے بہترین لوگ راستہ دکھانے والے بنائے جاتے۔

اس حصہ میں تمام کے تمام بڑے لوگ خود اپنے ساتھ ذیادتی کر جاتے ہیں، اگر انکے چاہنے والے انکی حفاظت کے لیے ہوشیار نہ ہوں۔

ایسے لوگ قانون ضابطہ سے قدرتی طور پر بلند ہوجاتے ہیں ۔

قدم کو لائن سے اگلی طرف رکھ دیتے ہیں ۔

law is the only way out

قانون حد بندی کرتا ہے۔

ضابطہ کی پاسداری تیسرے حصے کی مشکلات سے بچا لیتی ہے۔

ایس او پی نامی چڑیا چلا چلا کر واپس زمین کر ساتھ جوڑتی ہے۔

 چاہنے والے محبت والے

واہ واہ کرنے والے

جی حضوری کرنے والے

ساتھ ساتھ پھرنے والے

کسی نافذ شدہ قانون کی پہلی اور چھوٹی خلاف ورزی پر صرف سوال اٹھالیں۔

تو اپنا لیڈر اپنا محسن بچا لیتے ہیں ۔

یقینی طور پر مدثر پہلا نہیں ہو گا۔

اگر کسی خیر خواہ نے کسی سیئنر نے پہلے واقعہ میں صرف پوچھ لیا ہوتا

تو آج کا دن نہ آتا۔

ریاض عباس نے اپنا کام کر دیا تھا،سوسائٹی اور محکمہ نے اپنا کام نہیں کیا۔

اک شو کاز مل گیا ہوتا۔

اک احتجاج سوسائٹی نے کر دیا ہوتا،

مٹھائی کی ٹوکریاں نہ  بانٹتے

ریاض عباس مثال نہیں مثالی کردار بنتا۔

اک ریاض عباس ہور

سوشل میڈیا کل سے پولیس کے لیے داد اور تعریف سے گونجھ رہا ہے۔

کسی بچی کے ساتھ ہونے والی ذیادتی کے ملزم کو پولیس نے مقابلے میں مار دیا ہے۔

ملزم نہیں مرا اک اور ریاض عباس مار دیا ہم نے۔

نوید سعید ، عابد باکسر ، فیصل شریف ، صفدر سجاد ،فرخ وحید لا تعداد ۔۔۔۔

ہماری لیڈر کی ہیرو کی ڈیفینیشن الگ ہے ۔

ہم لیڈر مار قوم ہیں، لیڈر مرے تو مقبرے بناتے ہیں،

ہیرو مرے تو اس کے نام کی بلڈنگ

زندہ کو زندہ درگو کرتے ہیں۔

تیسرا حصہ:

تیسرا حصہ سورج کے ڈھلنے کا حصہ ہے، اور اب اپنی جنگ خود اپنے آپ سے لڑنا ہے،

ریس دوڑنے والے جانتے ہیں کہ تالیاں بجانے والے ہاتھ نہ ہوں تو اختتامی لائن قدموں کے نیچے سے گم ہو جاتی ہے۔

 کتنی دیر لڑ پا ئیں گے۔۔۔۔۔

انسانی نفسیات کے خلاف ہے کہ کوئی شخص پیدائشی مجرم ہو۔

میرا دل سے ماننا ہیکہ زرداری اور نواز شریف اتنے کرپٹ اور  بے حس نہیں تھے،

ہم نے اپنے غلامانہ رویوں سے آنکو وہ بنایا جو وہ اج ہیں۔

پہلی غلطی پر پہلی قانونی خلاف ورزی پر سوال کیا گیا ہوتا آج کا دن نہ آتا۔

لکھ کر رکھ لیں ہم کل عمران خان کو بھی اسی لائن میں کھڑا کریں گے۔

لیڈر/ ہیرو انسان ہوتا ہے، غلطی بھی کرتا ہے، 

اس کو تباہ ہونے سے بچانے کی ذمہ داری ہماری ہے عوام کی ہے۔ 

کیا کھویا کیا پایا۔۔۔۔۔

ریاض عباس صاحب کی زندگی آج کے دن تک جدید نظریات کی رو سے دیھکیں تو مکمل طور پر ناکام ہو گئے۔

نہ تو اپنی سوچ نئی نسل کو دے پائے۔

نہ اپنا جانشین دے پائے

نہ اپنا نام ہی بچا پائے۔

 

بڑا صاحب ساری کارگزاری ،سننے، دیکھنے کے بعد برف سے سرد لہجہ میں کہتاہے ۔

Ok, fine

Tell me what the law is

admin

http://fruit-chat.com

میری موج میری سوچ

1 Comment

  • Well said

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *