خون سے غلامی کیسے جائے؟
- Fruit Chat
- November 10, 2022
- 7
- 1035
- 8 minutes read
کیا غلامی خون میں ہوتی ہے؟
رویے کتنے اہم ہیںِ؟
رویے رد عمل کا نام ہے، کس طرح کسی خاص عمل کا ردعمل دیتے ہیں۔
رویے بنتے ہیں جذبات ، احساسات ،روایات ِ محسوسات ،اور اس کے ساتھ پیش آمد حالات میں فیصلہ سازی اور اس کے اثرات سے۔ اور یہی رویے فیصلہ کرتے ہیں غلام ابن غلام ہونے کا۔

رویے ہی فیصلہ کرتے ہیں کسی قوم کی آزادی یا غلامی کا
اور یہ کتنے اہم ہوتے ہیں اس کے لیے پہلے تھوڑی تفصیل جاننا ضروری ہے۔
سوچ کی ارتقاء
انسان آج سائنس کی اس معراج پر پہنچ چکا ہے، کہ دنیا کو چھوڑ کر نئی دنیا بسانے کیےخواب دیکھ رہا ہے نئی ایجادات کر رہا ہے کمالات کر رہا ہے ۔
آرٹیفیشل انٹیلیجنس روز اپنے بنائے ہوئے ریکارڈ توڑ خود توڑ رہی ہے ۔۔۔۔۔
اتنی ترقی اور کمال کے باوجود انسان اپنے دماغ کے آگے ہار جاتا ہے انسان اپنی سوچ ہار جاتا ہے ,آپ کو مزید حیرت ہو گی کہ انسان کی سوچوں کو لاشعوری طور پر کنٹرول کیا جاتاسکتا ہے۔ ہم غیر محسوس طریقے سے روبوٹ کی طرح ہی کام کر رہے ہیں ۔۔۔
انسانی دماغ بہت ہی پیچیدہ اور مشکل سے سمجھے جانے والے چیز ہے ، انسانی دماغ کو سمجھنے کے لیے سائنسدانوں نے اسے دو حصوں میں تقسیم کیا ایک حصے کو برین(دماغ) کا نام دیا ہے ، دوسرے حصے کو مائیڈ نام سے پہچانا جاتا ہے
برین کیا ہے ؟
برین انسانی دماغ کا وہ حصہ ہے جو عام طور پر مادی وجود رکھتا ہے ، جسے ہم چھو سکتے ہیں، محسوس کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔
برین کے بارے میں جو ریسرچ یا جو تحقیق ابھی تک سائنس نے کی ہے.
اس کے مطابق ،جیسے ہی انسانی اس دنیا میں آتا ہے،تو اس میں بڑھوتری کا عمل شروع ہو جاتا ہے.
اور یہ بڑھوتری کا عمل اس قدر منظم اور تیز ہوتا ہے کہ انسان جب پانچ سال کا ہوتا ہے. تو انسانی دماغ کا نوے فیصد حصہ تکمیل پا چکا ہو گا. نوے فیصد حصہ تکمیل پانے کے بعد باقی دس فیصد حصے کے لیے برین آہستہ آہستہ اپنی ہیت میں اضافہ کرتا رہتا ہے. اور اٹھارہ سال سے بیس سال کی عمر تک زیادہ تر فراد میں مکمل ہو جاتا ہے۔
لیکن کچھ لوگوں میں کمزوریوں اور دیگر عوامل کی وجہ سے یہ عمر پچیس سال اور شاز و تیس سال تک بھی ہوتی ہوئی دیکھی گئی ہے۔
اس دوران بریں پر جو سب سے زیادہ عوامل اثر انداز ہوتے ہیں
نیوٹریشنز مناسب خوراک کی کمی
انسانی رویے
بچے کا اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرنا
اپنے آپ کو تنہامحسوس کرنا اور تنہا رہنا
احساس کمتری محسوس کرنا
یہ وہ عوامل ہیں جو انسانی دماغ کو بہت زیادہ متاثر کرتی ہیں۔
ذہین کیا ہے ؟
دوسرا حصہ انسانی ذہن کاوہ حصہ ہے ،جس کوہم چھو نہیں سکتے یہ سوچوں کا حصہ ہے یہ تخیل کا حصہ ہے ،
انسان پیدا ہوتے ہی تین سال تک بالکل اپنے اردگرد سے غیر محسوس طریقے جذب کرتا ہے۔
جس کے بارے میں سائنسدان ایک sponge (فوم ) کا لفظ استعمال کرتے ہیں، شکلیں پہچانتا ہے, آوازیں پہچانتا ہے, بیٹھنا, لڑھکنا, چلنا, کھڑے ہونا, کھانا ہر وہ چیز سیکھتا ہے جو اس کے لیے ضروری ہو. اس کے بعد تین سال سے آگے کی عمر میں آہستہ آہستہ میچورٹی آنا شروع ہو جاتی ہے۔
میجیکل فگر/جادوئی عمر
فیصلہ سازی ،پسند نہ پسند ، . بنیادی در عمل، سات سال کی عمرمیں سیکھتا ہے، اس عمر کو کومیجیکل فگر کہا جاتا ہے یہ اس قدر اہم ہے کہ انسان پوری زندگی اسی وقت کی پروگرامنگ کے زیر سایہ گزار دیتا ہے . انسان جذبے رویے،ردعمل , ردعمل دینا اسی عمر میں سیکھتا ہے.انسان کی پوری پرسنیلٹی صرف اسی کے گرد گھومتی ہے.
یہیں فیصلہ ہو جاتا ہے کہ انسان نے کیاں تک جانا ہے ،سختی باز پرس شرارتوں سے روکنا ، نقصان یا چیزیں ٹوٹ جانے کا خوف کبھی بھی اسکو بروقت اور دلیری سے اپنا راستہ چننے نہیں دیتا صرف پیچھے چلنا اور جی حضوری ہی اس کا مقدر بن جاتی ہے ۔
لاشعور /شعور
ذہیں کے صرف پانچ فیصد حصہ پر ہم اپنی دسترس رکھتے ہیں. اپنی مرضی سے استعمال کرتے ہیں. اپنے تمام روزمرہ کے معاملات ،پڑھنا، لکھنا صرف اس پانچ فیصد میں ہوتا ہے۔اسے شعور یا conscious mind کہتے ہیں۔
پچانوے فیصد کو ہم Sub conscious mind لاشعور کہتے ہیں ،انسان اپنےزہین کاپچانوے فیصد حصہ لا شعوری طور پر استعمال کرتا ہے. اسے آسانی سے اس ظرح سمجھا جا سکتا ہے کہ جس طرح کمپئوٹر کو چلانے کے لیے ونڈو کی ضرورت ہوتی ہے اسی ظرح اس حصہ میں وہ سافٹ وئیر انسٹال ہوتا ہے جو بچہ پیدا ہونے کے بعد جزب کرتا ہے اور وہ بھی جس نے جسم کے تمام افعال چلانے ہوتے ہیں۔
انسانی وجود کو ایک بہت کمپلیکس مشین کی صورت میں بنایا ہے. اس مشین کو چلانے, دوڑانے, بھگانے اور اس کو بہتر انداز میں منظم رکھنے کے لیے اتنے ہی طاقت ور سسٹم اور پروسیسر کی ضرورت یوتی ہے . یہ ونڈو پیدائش سے سات سال کی عمر میں install ہوتی ہے. اور پھر ہم اسی window کے اوپر چلتے ہوئے اپنی تمام سوچیں, رویے, ردعمل دیتے چلے جاتے ہیں, غیر محسوس طور پر اپنے رویے اسی کے تابع ہوتے ہیں۔
اہک مثال کے ذریعے اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں.
سرکس کا ہاتھی
آپ نے سرکس کے ہاتھی والی مثال تو سنی ہو گی. ہاتھی کے بچے کو باندھ دیا جاتا ہے ایک رسی کے ساتھ وہ زور لگاتا ہے. اسے توڑنے کو نہیں توڑ پاتا. مسلسل کوشش سے وہ یہ تسلیم کر لیتا ہے اس کے لاشعور میں سب کانشیئس مائنڈ میں فیڈ ہو جاتا ہے. کہ وہ یہ رسی نہیں توڑ سکتا.
اور پھر بھر پوری جوانی جب وہ اس جیسے دس رسے توڑ سکتا ہے. وہ ایک رسی ہی اس کا لاشعور اس کو توڑنے نہیں دیتا.
آپ نے سرکس کے ہاتھی والی مثال تو سنی ہو گی. ہاتھی کے بچے کو باندھ دیا جاتا ہے ایک رسی کے ساتھ وہ زور لگاتا ہے. اسے توڑنے کو نہیں توڑ پاتا. مسلسل کوشش سے وہ یہ تسلیم کر لیتا ہے اس کے لاشعور میں سب کانشیئس مائنڈ میں فیڈ ہو جاتا ہے. کہ وہ یہ رسی نہیں توڑ سکتا.
اور پھر بھر پوری جوانی جب وہ اس جیسے دس رسے توڑ سکتا ہے. وہ ایک رسی ہی اس کا لاشعور اس کو توڑنے نہیں دیتا.
ایک اور مثال
اسی بات کو ہم اپنی زندگی میں ایک اور مثال سے سمجھتے ہیں.
آپ نے کبھی غور کیا ہےَِِِِِ؟
ایک خاص عمر کے بعد لوگ نئی موسیقی سننا بند کرتے ہیں۔ ان کا برین جس جگہ رک جاتا ہے، جس جگہ مکمل ہو جاتا ہے ۔
اسی دور کے میوزک یا اس طرح کے ،میوزک کو سنتے ہیں اور اگلے یا بعد کے زمانے کو نہیں اپنا پاتے ۔
ان کی aesthetic sense نہیں بڑھ پاتی ,کیونکہ ان کا برین ڈویلپ ہونا جہاں مکمل ہوا وہیں پر بریک لگ گئی وہیں پر وہ رک گئے.
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں بعض سیاسی یا اخلاقی نظریات اس لیول تک پختہ ہو جاتے ہیں. کہ آپک کسی کو جتنا بھی قائل کر لیں , سمجھا لیں . آپ نظریات کو تبدیل نہیں کر پاتے.
یہ بات تقریبا تمام لوگوں میں تسلیم کی جاتی ہے. کہ دلیل سے صرف آپ ایک فیصد لوگوں کو قائل کر سکتے ہیں 99 فیصد لوگوں پر آپ کی دلیل کا اثر نہیں ہوتا.
اس لیے اس کو سمجھنا ضروری ہے کہ کہاں پرآکر بریک لگتی ہے نیورو پاتھ کہاں پر آ کر مکمل ہوتے ہیں اور دوبارہ نہیں بنتے کہاں پر دماغ اورزہین کا آپس میں کنکشن ہے.
روایات کی منتقلی اور نئی نسل
ہم سے پچھلی نسل جس نے وہ تمام روایات، ردعمل اور علم ہم تک منتقل کرنا تھا زمانے کی بدلتی کروٹ میں کھو کر ہم تک منتقل نہ کر پائی جب بچہ نے سیکھنا ہوتا ہے جذب کرنا ہوتا ہے آج تک ہم اسے سکول اور ٹویشن کے لئے روانہ کر دیتے ہیں۔
مرزا غالب کی مثال اکثر ایک فضول خرچ اور اپنی آمدن سے زائد خرچ کرنے والے شخص کے طور پر دی جاتی ہے۔لیکن مرزا غالب نواب تھا، وہ نوابوں کے خاندان میں پرورش پا کر بڑا ہوا تھا، وہ نہ چاہتے ہوئے بھی نوابوں ہی کی طرح رہتا اور خرچ کرتا رہا۔۔
.95%ذہن جو ہمارا لاشعور ہے وہ ہمارے روئیے بناتا ہےاور ہماری اگلی نسل ہمارے روئیوں سے اپنی سوچیں
ایک نسل سے اقدار اور روایات کو دوسری نسل میں منتقل کرتے ہیں۔
خوں میں کچھ نہیں ہوتا
یہ ہمارے رویے ہی ہیں ، جو آزادی اور غلامی کا فیصلہ کرتے ہیں ،
یہی رویے وفا اور غداری سکھاتے ہیں۔
یہی روئیے اگلی نسل کی سوچوں کی حد مقرر کرتے ہیں ،
اگر قوم کا مستقبل بدلنا ہے تو اپنے رویے بدلنا ہوں گے
“رویے سوچیں بنتی ہیں, اور نسلیں کھا جاتی ہیں”
یہاں یہ سمجھنا بہت ضروری ہیکہ لاشعور شائد شعور سے بھی زہادہ اہم حصہ ہے کیونکہ ہم اس پر تمام تر کوشش کے باوجود بھی مکمل کنٹرول نہیں پا سکتے جو نیورو پاتھ بن چکے ہوتے ہیں ان میں ایک خاص حد سے زیادہ ان میں ترمیم نہیں کر سکتے ۔
محرک یا ٹرگر
جیسا کہ ہم جان چکے ہیں کہ کس طرح ایک بچے کا ذہیں اپنے اردگرد سے سیکھتا ہے ۔ اسی بنیاد پر یہ کہا جاتا ہے کہ کسی بھی بچے کی زندگی کن خطوط پر گزرے گی اس کا فیصلہ اس کے ماں باپ اس کی پیدائش کے اولیں سالوں میں کر دیتے ہیں ۔
ہر وقت ڈرے سہمے شرارت نہ کرنے والے اور نقصان سے خوف کھانے والے بچے کبھی کامیاب انسان نہیں بن سکتے ۔
بڑھوتری کی عمر میں کوئی بھی واقعہ ۔ حادثہ بچے کی نفسیات پر بہت گہرا اثر چھوڑتا ہے اور تا عمر ایک ٹرگر کی طرح ہوتے یہیں جو ایک خاص موقوع یا وقت پر سامنے آتے ہیں ۔ بچپن کی محرومیاں اور تلخیان تمام عمر ساتھ چلتی ییں۔
مثال کے طور پر ہمارے اردگرد کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے بارے میں ہم پہلے سے جانتے ہیں کی کس بات پر ٹرگر ہوں گے ، اور دوست احباب اکژر انکا اس بات پر مزاق بنتے ہیں اور وہ لوگ چاہ کر بھی اپنے آپکو تہ شدہ ردعمل دینے سے نہیں روک سکتے۔
ان عوامل کو ایموشنل ٹرگر کہا جاتا ہے ۔اور ان سے پیچھا چھڑانا خاصا مشکل کام ہے۔
ہمارا تعلیمی نظام ایک خاص مقصد کو مد نظر رکھ کر ڈیزاہن کیا گیا ہے ، اس کا بنیادی مقصد دماغوں کو ماؤف کرنا ہے ۔۔۔۔۔۔
جس میں وہ کامیاب بھی ہیں ۔کس طرح پڑھئیے۔

7 Comments
Kamaal likha ha bahi
[…] غلام رویےاورخون سے غلامی کیسے جائے؟ […]
[…] غلام رویےاورخون سے غلامی کیسے جائے؟ […]
[…] 11, 2022 read more Fruit […]
[…] خون سے غلامی کیسے جائے؟ […]
[…] خون سے غلامی کیسے جائے؟ […]
[…] […]