میرجعفرنمک حرام سپہ سالار تھا؟
- Fruit Chat
- December 4, 2022
- 28
- 1333
- 10 minutes read
میرجعفر کو پورے برصغیر پاک و ہند میں اس کی نمک حرامی اور غداری کے باعث نفرت سے دیکھا جاتا ہے ، اس کواس بات کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہیکہ اس کی وجہ سے برصغیر پاک و ہند پر انگریزی فتوحات کا دروازہ کھلا ۔میر جعفر سراج الدولہ کی فوج کا سپہ سالارر تھا بعد ازاں نمک حرام سپہ سالار کہلایا۔
اس کےمقبرہ پر لوگ آج بھی نفرت کا اظہار کرتے ہئیں اور اس کے محل کو نمک حرام ڈیوڑھی کہا جاتا ہے
سپہ سالارمیرجعفر کون تھا؟
میر جعفر ایرانی النسل تھا ، نواب علی وردی خان کے دور میں میں بنگال کا صوبے دار تھا ۔
لیکن برادون کی جنگ میں میر جعفرااور راج محل کے فوجدار نےاپنی فوجیں نکال لی ۔
علی وردی خان کو اس جنگ میں مغلوں کی وجہ سے فتح نصیب ہوئی ۔(1745)
بعد ازاں علی وردی خان نےاسے برطرف کردیا۔
سراجدولہ کی حمایت پراسکو واپس دربار میں جگہ ملی، بعد ازاں سپہ سالار بھی بنا۔
پلاسی کی جنگ میں سراج الدولہ کو میر جعفراوردیگر کی غداری کی وجہ سے شکست ہوئی ۔
پلاسی کی جنگ میں انگریزوں کی فتح کے بعد میرجعفر کو بطور نواب بنگال مقرر کیا گیا ،
لیکن بعد میں نواب کے خلاف انگریزوں کو یقین ہو گیا ،کہ
نواب انگریزوں کی بجائے ، پرتگیزیوں سے رابطے میں ہے، جس پر نواب کے بھتیجے میر قاسم کونواب مقررکیا گیا ۔
لیکن انگریزوں کو مطلوبہ تجارتی سہولیات نہ دینے پربکسر کی جنگ کے بعد میر جعفر کودوبارہ نواب مقرر کیا گیا ۔
میرجعفر کیسے مرا ؟
1764 میں دوبارہ تخت نشین ہونے کے بعد میر جعفر 5 فروری1765 میں قدرتی موت مرا، اور جعفر گنج مرشد آباد، بنگال میں دفن ہوا۔
پلاسی کی جنگ میں کردار؟
پلاسی کی جنگ میں نواب سراج الدولہ کے پاس تقریبا 50000سپاہی ، 40 توپیں اور 10 ہاتھی تھے ۔کرنل رابرٹ کلائیو کے 3,000 سپاہیوں نےشکست دی۔ میرجعفر، یار لطف خان، جگت سیٹھ ، سوروپ چند، اُمی چند اور رائے دُرلبھ جیسے دیگر لوگوں نے نواب سراجدولہ کے خلاف سازش کی ۔۔
لیکن اس کے باوجود، اتنی زیادہ تعداد میں فوج پر اگر سوتے میں بھی حملہ ہو تو بھی شکست سمجھ سے بالا تر ہے ۔1/16 کی نسبت سے شکست ۔
پلاسی کی جنگ میں مخالفت کی وجوہات کیا تھی؟
نواب سراج الدولہ علی وردی خان کی وفات کے بعد تئیس سال کی عمرمیں نواب بنا ،ناتجربہ کار ،کم عمر، فراست سے عاری ، سیاست سے لابلد طبیعت نے ، عدم تحفظ کااحساس پیدا کیا۔ جو نواب کی شکست کی بنیادی وجہ بنے ،میر جعفر اور تمام دوسرے درباری عزت اور دولت کے عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا تھے ۔ انگریزوں کے ساتھ ساتھ معاملات کرنے میں میر جعفر کے علاوہ جتنے بھی لوگ شامل تھے ،سب نے اپنے اپنے طور پر اپنا فائدہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔
اورہر کسی نے زیادہ سے زیادہ مال بنانے کی کوشش کی ۔
نمک حلال اور نمک حرام کا ایک مضبوط تصور
ہندوستان میں جہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں اسی طرح ہر مذہب میں مزید ذات پات کا نظام موجود ہے۔
اور مزید مختلف ذات برادری کے لوگ مختلف مذاہب میں موجود ہیں ۔ضرورت کسی ایسے تصور کی تھی ،
جو ذات پات اور مذہب سے بالا تر ہو کر کسی بھی ،
فرد کو حاکم اور سردار کے ساتھ جوڑ کر رکھ سکے، اور جان تک دین پر مائل ۔
یہاں ضرورت نے ایسے تصور کو جنم دیتا، جس سے تمام رعایا آقا کی تعبدار رہے ، سر اٹھنے کی جرات نہ کرے۔
نمک پوری دنیا میں استعمال ہوتا ہے لیکن ہندوستا ن میں اس کی جو تاثیر دریافت ہوئی کسی اور ملک میں نہ ہو سکی ۔
کسی بھی شخص کا کسی مالک یا بادشاہ کے ساتھ جڑے رہنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو ایک اچھی خوبی کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔
نمک حلالی ہمیشہ بالا تر طبقہ کی طرف سے موجود عوام اور محکوم طبقے کے لیے استعمال کیا جانےوالا لفظ ہے ۔
آج تک کسی نہ ،کسی سے باغی راجہ کے لیے نمک حرام کا لفظ استعمال نہ کیا ہے ۔
اور نہ ہی کسی طاقتور کے خلاف اس کا استعمال ہوتا ہے ۔
اس کا استعمال صرف اور صرف کسی طاقتور اور معاشی بالادستی والے افراد کی طرف سے زیر نگیں افراد پر ہوتا ہے۔
سادہ الفاظ میں کسی بھی ثخص کو غلام رکھنے کا اک ظریقہ ہے۔
ذاتی غلام رکھنے کا ایک طریقہ ۔
یہ طریقی اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ کوئی بھی ذاتی ملازم ،ماتحت اپنی مرضی یا مفاد کی بجائے،
طاقتور کے مفاد کو عزیز رکھاگیا ، وہیں طاقتور پر کوئی ذمہ داری عائد کرنے سے انکاری ہے ۔
نمک ہلالی میں بالا دست شخص پر کوئی روک ٹوک نہیں جب چاہے راستہ بدل لے لیکن کمتر شخص کو یہ اختیار حاصل نہیں ۔
ہنوستان میں آئے روز راجے مہاراجے بغاوت اور سرکشی پر آمادہ رہتے ۔
لیکن ان کو کبھی کسی نے نمک حرامی کا طعنہ نہ دیا ۔باغی کا لفظ استعمال ہوا ۔
لیکن انہی کا کوئی جنرل اپنے مفاد کے راستے الگ ہوا تو نمک حرام کہلایا۔
وفاداری اور نمک ہلالی کے تصور میں کیا فرق ہے؟
وفادرای
وفداری ایک قیمتی تحفہ ہے ھو کسی بھی شخص کی جانب۔ سےکسی فرد خواہ اس سے کسی بھی تعلق رشتہ میں منسلک ہو ،
اس سے اخلاص، وفا ،عہد ، بیاں ،مروت نبھانا ہوتا ہے ۔
یہ کسی بھی شخص کی طرف سے ایک اعلی ترین نزرانہ ہوتا ہے ۔ اس میں کوئی شرائط نہیں ہوتی ،
کوئی جبر نہیں ہوتا ۔ ایک لطیف جذبہ ہے ۔ لیکن انمول
نمک ہلالی/نمک حرامی
بادی النظر میں نمک ہلالی وفاداری جیسی ہی لگتی ہے ، لیکن اس سے الگ ہے۔
فرق یہ ہے کہ نمک ہلالی میں زور زبردستی اور جبر کا عنصر شامل ہے ،
نمک ہلالی کا تصور ہی اس بات پر قائم ہیکہ اپنے مفاد بھلائی اور مرضی کے بجائے آقا کی ،مالک کی،
صاحب کی مرضی پر قائم رہاجائے ، کوئی آواز حق نہ بلند ہو ،
وفاداری جہاں دونوں فریقین میں پیار کو بڑھاتی اور محبت کا رشتہ استوار کرتی ہے ،وہیں نمک ہلالی ازیت ،تکلیف اور کرب لاتی ہے ۔
ابراہیم گاردی نمک حرام تھا یا نمک حلال؟
ابراہیم گاردی نظام حیدرآباد کی فوج میں عہدہ دار تھا آصف جاء کے ساتھ بھی خدمات سرانجام دیں.
نظام حیدرآباد کی شکست کےبعد ابراہیم مرہٹوں کی فوج میں شامل ہوااور نائب سالار بنا ۔
پانی پت کی تیسری لڑائی میں جب کئی مرہٹے سالار فرارہوئے اور باقی مارے گئے،ابراہیم ڈٹا رہا ۔
یہاں تک کہ پیشوا کے بیٹے کی موت کا سن کر بھی ابراہیم نے ہتھیار نہ ڈالے ۔
ابراہیم گاردی کی بٹالین نے ڈٹ کر آخر تک مقابلہ کیا،اس جنگ میں درانی فج کے 45 ہزار کے قریب سپاہی کام آئے ۔
بعد ازاں ابراہیم گاردی کو زخمی حالت میں گرفتار کر لیا گیا ۔
اس وقت ابراہئم نے اپنی خدمات فاتح فوج کو جان بخشی کے عیوض پیش کردیں ۔
لیکنابراہی،م گاردی کی وجہ سے نقصان اتنا شدید تھا کہ اس کی یہ پیشکش کام نہ ائی ،
اس کے ذخموں پر زہر مل دیا گیا اور اس نے تڑپ تڑپ کر سات دن بعد جان دی۔
چشم بند
میرجعفر
کے دور میں میں تاریخ اس دور سے گزر رہی تھی کہ، جب برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں میں نااہلیت،
اقرباپروری ،ذاتی پسند نا پسند اپنے عروج کو چھورہی تھی ۔
زمانے کے ساتھ چلنے اور نئے طریقے سیکھنے کے بجائے،آپس کی رسہ کشی میں مگن رہے ۔
ان میں اہلیت نہ رہی تھی حالات کو سمجھنے کی۔
اس دور کو سمجھنا بہت ضروری ہے ،قحط رجال کا دور تھا،
ہر طرف زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے اور چھین لینے کی ، دوڑ لگی تھی۔
غیر یقینی حالات نے اخلاقیات کو بد سے بدتر بنا دیا تھا، میرجعفر جوکہ سالار تھا سراج الدولہ کا
اس قدر بد زن کہ ملاقات کے لئے جاتے یہ یقین نہ ہوتا کہ واپس آپائے گا۔
سراج الدولہ نے جس طرح طاقت کا استعمال کر کے ذاتی پسند ناپسند پر لوگوں کو ذاتی دولت سے بھی مھروم کیا وہ الگ داستانیں ہیں۔
اسی طرح ابراہیم گاردی صرف ایک سالار تھا ، جنگ اس کا پیشہ ۔ایک دن نظام کی فوج کی طرف
سے مرہٹوں کو مارا دوسرے دن مرہٹوں کی طرف سے کسی اور کو۔
میر جعفر نے وہی کیا جو اس زمانہ میں سب کرتے تھے ، بھائی بھائی کا گلہ کاٹ کے تخت نشین ہوتے تھے ۔
میر جعفر بھی تو اشرافیہ سے تھا کوشش کرنا اسکا حق۔
خود سراج الدولہ کے دادا نے بھی اسی طرح تخت پر قبضہ کیا تھا ۔
مفادات کی جنگ میں قومیت ،عصمیت، وطنیت لسانی تکریم سب بکواس ہیں ، تخت کی لڑائی کل بھی تھی آج بھی ہے۔
تاریخ چشم بند کے بغیر نئے معانی سامنے لاتی ہے
سوچنے کی بات
کیوں اس زمانہ سے صرف میر جعفر کے کردار کو زندہ رکھا گیا ، کیوں اس نام کے ساتھ اتنی نفرت جوڑ دی گئی؟
باقی سالاروں کا نام کہاں گیا ؟
1765 میر جعفر سسے 1799 میر صادق تک انگریزوں نے پورا ہندوستان جیت لیا کیا سب ان دو کرداروں کی وجہ سے تھا ؟
جن لوگوں نے انگریز سے معاہدہ کروایا ان کو کیوں بھلا یا گیا؟
نواب اور میر جعفر کے درمیان جو خراب تعلقات تھے انکی بابت کوئی کیوں نہیں بتاتا؟
شاہد ہمیشہ سے ہی ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور
نمک حرامی بھی صرف
Tool to rule the Fools
28 Comments
[…] نمک حرام سپہ سالار […]
[…] Fruit Chat […]
[…] Fruit Chat […]
[…] Fruit Chat […]
[…] 14, 2022 read more Fruit […]
[…] read more […]
[…] نمک حرام سپہ سالار […]
[…] مزید پڑھیں […]
[…] December 14, 2022 مکمل پڑھیں […]
[…] مزید پڑھیں […]
[…] مزید پڑھیں […]
[…] نمک حرام سپہ سالار […]
[…] 1, 2022 read more Fruit […]
[…] مزید پڑھیں […]
[…] مزید پڑھیں […]
[…] مزید پڑھیں […]
[…] مزید پڑھیں […]
[…] 1, 2022 read more Fruit […]
[…] مزید پڑھیں […]
[…] […]
[…] میرجعفرنمک حرام سپہ سالار تھا؟ […]
[…] تو سہی جب میر جعفر نے سراجالدولہ کے باپ کے خلاف جا کر اس کو میدان جنگ میں […]
[…] میرجعفرنمک حرام سپہ سالار تھا؟ […]
[…] مزید پڑھیں […]
[…] میرجعفرنمک حرام سپہ سالار تھا؟ […]
[…] میرجعفرنمک حرام سپہ سالار تھا؟ […]
[…] مزید پڑھیں […]
[…] […]