زنانہ ریپبلک

لاہور میں ایک محلہ ہے، پرانی آبادی ہے ۔ اور تقریبا تمام گھر آپس میں رشتہ درا ہیں۔
اس محلہ کی وجہ شہرت یہاں پر رہنے والی خواتین کی لڑائی ہے ۔
زبان زد عام ہیکہ ،اگر خواتین کی آپس میں ان بن ہو جائے تو یہ خواتین سارا دن بیٹھ کر لڑتی ہی اور بلا تکان لڑتی ہیں ۔
شام ہوتے ہی، لڑائی میں وقفہ دی جاتا ہے رات کو آرام کیا جاتا ہے اور صبح پھر سے نئے جوش کے ساتھ تازہ دم دستے ۔ میدان میں اترتے ہیں اور لڑائی وہیں سے شروع ہوتی ہے جہاں رُکی تھی۔

اس دوران خاندان کے مرد حضرات اپنے کام کرتے رہتے ہیں اور دنیا جہاں کے الزامات ایک دوسرے پر لگتے رہتے ہیں ۔ لیکن کسی سئینئر قیادت کی دخلاندازی نہ ہونے کی وجہ سے معاملات کسی طرح حل ہونےپر نہیں اتے۔

ریاست پاکستان کو یہ رویہ کسی نے بتا دیا ہے ۔ اور ایک لمبے عرصے سے اسی رویے کا شکار ہے۔ اور سونے پر سہاگہ یہ کہ مردوں کا اپنا کام جاری رکھنے والا نقطہ بھول گئی۔

زیادہ ماضی تو نہیں جانتا۔ لیکن جب سے ہوش سنبھالی ہے ایک کو دوسرے پر اور دوسرے کو تیسرے پر الزامات لگاتے جیل جاتے اور پھر دوسرے کو جاتے دیکھتے ہیں ۔ ایک سال ایک شخص مظلوم ہوتا ہے اگلے سال دوسرا۔

ہمارے سامنے جو تازہ تریں مثال ہے، میری خواہش ہے کہ اس موقع کو سنہری موقع جانکر یہ راستہ بند کردیا جانا چاہیے ۔
سیاسی اختلاف ہو سکتا ہے، ہونا بھی چاہیے تنقید کے بغیر تعمیر ممکن نہیں ۔۔۔۔
لیکن حمزہ شہباذ، مریم نواز، شہباز شریف،رانا ثنااللہ، حنیف عباسی ، احسن اقبال، نواز شریف
کو ہزاروں لوگوں نے ووٹ دیئے تھے۔
انکے نمائندہ ہیں ۔
پاکستانی ہیں ہم میں سے ہیں ۔

ان پر کیس بنے اور انکو جیل میں بھی رکھا گیا۔

جہاں تکنیکی خرابیاں ہیں انکو درست کیا جائے ۔
اور جن افسران نے ان پر کیس بنائے انکو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔

کیسے ریاست خاموش کھڑی رہی ۔۔۔
ریاست تو ایک عام ادمی تک کی ذمہ دار ہے کیسے ان لیڈروں پر ظلم ہونے دیا ۔

رانا ثنااللہ صاحب کے مقدمہ میں لکھ کر دے دیا گیا کہ پرچہ درج ہوتے موقع پر نہیں تھا ۔

تماشا بند ہونا چاہیے۔
ان لیڈروں کو انصاف مل گیا تو انے والے تمام کو کم از کم اس مسئلہ سے نجات مل جائے گی ۔ ۔۔
عام آدمی تک کو انصاف ملے گا ۔
جن جن افسران کے ان صفحات پر دستخط ہیں، انکو انہی کاغذات میں موجودہ قوانین میں باز پرس کر لیں ۔۔۔۔۔

انصاف قائم کرنا پڑتا ہے ۔ 75 سال میں محمد بن قاسم نہیں آ یا ، مستقبل میں بھی امید نہیں ۔
ہم نے کرنا ہے اج ہی کرنا ہے۔

نہیں تو کل ایک گیا تھا ، اج دوسرا جائے گا ۔ کل پھر پہلا جائے گا۔
عوام بھیڑوں کے ریورڑ کی طرح کبھی ایک طرف کبھی دوسری طرف ۔
اور ریاست اپنے سارے کام چھوڑ کر تماشا دیکھ رہی ہے۔

آج ان لیڈروں کواپنے اپکو انصاف دینا پڑے گا ۔

اور اگر نہیں دیں گے۔

تو انگریزوں والی بنانا ریپبلک تھی ، ہمارے والی زنانہ رپبلک ہے ۔
سارے کام چھوڑ کے
ننی توں ۔۔۔۔
میں نئی۔ توں
اور ہم نکی نکی تالی بجا کے بیک گراونڈ میوزک دے رہے ہیں۔

admin

http://fruit-chat.com

میری موج میری سوچ

10 Comments

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے