زندہ ہاتھی لاکھ کا مردہ سوا لاکھ کا

وطن عزیز پاکستان  میں ایک اردو کہاوت بہت مشہور ہے

 زندہ ہاتھی لاکھ کا اور مردہ سوالاکھ کا

اس محاورے کی کبھی تشریح سمجھ نہ آسکی کہ کیسے کوئی ہاتھی یا انسان مرنے کے بعد قیمتی ہوتا ہے۔

 جس شخص سے زندگی میں شائد بات کرنا اور اس کا حال احوال دریافت کرنا کی صحت کے بارے میں دریافت کرنا مناسب نہ سمجھیں۔ لیکن ان کی وفات کے بعد ہونے والے چالیس روز تک کے سوگ اس پر کیے جانے والے اخراجات اور اور روایات بتاتے ہیں۔

زندہ ہاتھی لاکھ کا اورمردہ سوالاکھ کا

  امریکہ سے ہمیں دس ہزار شکایت ہو سکتی ہیں لیکن ایک بات جو ہمیں مان لینی چاہیے انہوں ںے ہمیشہ ہر کام کی مناسب قیمت ادا کی ہے، اسی لیے پاکستانیوں کی بارے میں انتہائی سخت بات بھی ہم برداشت کر گئے۔

 

اس سے بھی زیادہ بے عزتی تب ہوئی

Horan said, “you don’t apologize for what you didn’t do.” He added: “I am a prosecutor, not a diplomat.”

 The washington post 

لیکن پاکستان میں حکومت  ، سیاست  معاشرت ، معاشیات اور ریاست کا تمام تر دارومدارہمارے فوت ہونے والے بہن بھائیوں اور دوستوں پر ہی ہوتا ہے ۔

مثال کے طور پرافغان جہاد سے شروع ہونے والا کاروبار اب تک جاری ہے

 کبھی ہم نے افغانستان میں مجاہدین بھیجے ان کے بد لے ڈالر لیے ، کبھی طالبان کی سرپرستی کرکے کے لوکل فائدے حاصل کیے۔

 بھٹو صاحب کی پھانسی کے  بعد ایک پارٹی کی سیاست کا مرکز و محورانکا مزاربنا،تو ضیاء الحق صاحب کی شہادت کے بعد بعد دوسری پارٹی کو بھی ایک شہید میسر آ گئے بعدازاں بے نظیر صاحبہ کی تصویر پر پھول چڑھا کرانہیں بھی سیاسی مقاصد کے لیے زندہ رکھا گیا۔ ارشد شریف کو ایک تیسری پارٹی کیش کروانے کی کوشش میں ہے۔

   زلزلے( 2005) نے ہم پر یہ راز کھولا کہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں بھی اس طریقہ سے کمائی ممکن ہے۔

اس کے بعد ہم نے ہرطرح کےسانحے پرانٹرنیشنل اداروں سے کبھی امداد کبھی قرض اور کبھی دیگر فوائد حاصل کیے،

سیلاب ہمیشہ آتے رہے ہیں، قیام پاکستاب کے بعد پہلا بڑا سیلاب 1950 کا تھا اس کے بعد 1955, 1956, 1957, 1959, 1973, 1975, 1976, 1977, 1978, 1981, 1983, 1984, 1988, 1992, 1994, 1995 اور2010 تک اور پھر ہر سال ہم ڈوبتے رہے ہیں۔ 

چولستان میں قحط پڑے ،ٹڈی دل لشکر پاکستان کی فصلوں پر حملہ کریں ،ہم نے ہر چیز کو کیش کیا۔2022 میں آنے والاسیلاب پہلے آنے والے سیلابوں سے مختلف تھا۔

اس سیلاب کے ساتھ ہونے والا نقصان شاید کئی سالوں کے بعد بھی پورا نہ ہو لیکن اس دفعہ دنیا نے پاکستان کی طرف اس مدد کا ہاتھ نہ بڑھایا، جس کی توقع  کی جا رہی تھی جس کی وجہ پاکستانیوں کے روئیے اور نیا رخ  متعین کرنا تھا۔

ہم نے ہر وہ قانون تبدیل کر دیا  جس کی وجہ سے پاکستان فیٹف  کے بلیک لسٹ میں جانےوالا تھا

,تمام کے تمام مالی جرائم کو یا تو لیگل کردیا گیا،یا انکے قوانین کوکمزور کردیا گیا پاکستان بمشکل انوسٹمنٹ گرین ہوا تھا، نئی حکومت آتے ہی تیسرے دن دوبارہہ رسک لسٹ پر تھا۔ 

دنیا آگے بڑھنے کا فیصلہ کر چکی ہے اس لیے دہشت گردی سے جان چھڑانا چاہتی ہے، شدت پسندوں کے مالی نیٹورک کو  توڑنا چاہتی ہے ۔ حال ہی میں فرانس کی ایک سیمنٹ ساز کمپنی کے خلاف کاروائی ہوئی۔

 دنیا نے ہم سے منہ موڑ لیا،اور پوری کوشش کے باوجود کوئی قابل ذکر سپورٹ حاصل نہ کر سکے 

اس کے  بعد مسلسل کوشش اور محنت سے ڈیفالٹ کا خطرہ خود پر مسلط کرنے کے باوجود ہم دنیا کو اپنی طرف راغب نہ کر سکے۔

 لیکن حکومت پاکستان نے ہماری واحد صنعت جنگ، کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے  تحریک طالبان پاکستان  سے معاہدہ کر کے واپس ان کو پاکستان کے اندر داخل کیا  اور بنوں کینٹ پر ہونے والے حملے کے بعد دنیا  پاکستان کی طرف توجہ دینے پر مجبور ہوگئی۔

امریکی نمائندہ کی طرف سے دیے گئے بیان  کو حکم جان کر پوری دنیا نے ہماری طرف توجہ دی, یاد رہے امریکہ پاکستان پر طالبان کی بابت ڈبل پالیسی کا الزام عاہد کرتا ہے اور تعلقات میں وہ گرم جوشی نہیں رہی  ۔

 چند ہفتے قبل تک یو اے ای کے معمولی بینک تک پاکستان کے قرضے ریشیڈول کرنے پر تیار نہ تھے۔ ستمبر تک ورلڈبنک چھوٹے قرضوں پر بھی شرائظ سخت کر رہا تھا ،کوئی ادارہ پاکستان کی طرف امداد کا ہاتھ بڑھانے کو تیار نہ تھا ۔

بنوں کینٹ سی ٹی ڈی، پر حملہ کے بعد وررلڈ بنک  نے پاکستان کو 1.6 ارب ڈالر کی امداد جاری کر دی  اوراس کےبعد  دیگر نے بھی ہاتھ بڑھانا شروع کر دیا۔

جنیوا میں جس طرح سے بڑھ چڑھ کر پاکستان کو امداد اور قرض دینے کا اعلان کیا  گیا۔

یہ رویہ پچھلے پانچ ماہ کے رویے سے یکسر مختلف ہے، اس کے ساتھ ہی یاد رکھناچاہیے کہ مغربی باڈر پر دوبارہ سےآپریشن ضرب عضب شروع کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ جن طالبان کو ہم نے خود  واپس آنے کی اجازت دی، انکو باہر نکالنے کے لئے ایک اور بیس سالہ جنگ ناگزیر ہو چکی ہے۔

یہی وہ وجہ ہے جس کے لیے دنیا نے پاکستان کی طرف  ڈالروں کا دریا کھول دیا ہے۔ دنیا کو خطرہ حقیقت لگنے لگا ہے کہ ہمارے ہتھیارکسی بھی وقت شدت پسندوں کے پاس جا سکتے ہیں۔

پولٹیکل سائینس کے طلبا جانتے ہیں کہ سیاسی غلطی ہو یا کسی ڈکٹٹرکو تحفظ دینا ہو،

 جنگ ہی سب سے موثر ہتھیار ہے۔ 

طالبان کو واپس پاکستان آنے کا موقع دیکرنئی جنگ کی راہ ہموار کر کےحکومت نے اسی سوچ کے استعمال کا فیصلہ کیا ہے ۔

آج تک کسی قدرتی آفت کے نقصانات کی روک تھام کے لیے  ایک اینٹ نہ رکھ کر ہم نے اپنی پرانی روش  پر چلتے رہنے کا عزم کیا ہے۔

 میرے پیارے بھائیو پاکستانی عام آدمی زندہ تو شاید پاکستان اوراشرافیہ کے لئےکارآمد ثابت نہ ہوا،

لیکن مرے ہوئے پاکستانی کے عیوض ڈالر ملتے رہیں گے۔اسی  لیئے نہ تو کوئی تعلیمی نظام بہتر کرنے پر توجہ دیتا ہے نہ معیار زندگی اسی لئے اب تک تمام قسم کی انڈسٹری کو خام مال روک کر بند کر دیا گیا ہے۔

بھکاریوں کا ایک خاص طبقہ اپنے فوت شدگان کو دیہات کے چوک میں رکھ کر اس کے کفن دفن کے لیے پیسے اکھٹے کرتے ہیں اور یقینی جنت کی بشارت۔ آزادی غلامی اور قومی غیرت سوچ میں ہوتی ہے ۔

آیندہ شہید، مقتول، جانبحق ہونے والوں کی قربانی کی قدر کریں ، انہی کی وجہ سے ہماری ہڈ حرامی اور عیاشی برقرار رہے گی۔

شائد یہی سب سے مناسب تشریح ہے

زندہ ہاتھی لاکھ کا مرا سوا لاکھ کا

                                                                                                     مزید پڑھیں

admin

http://fruit-chat.com

میری موج میری سوچ

4 Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *