اک سمت ہے ذات اپنی، اک سمت زمانہ ہے

اک سمت ہے ذات اپنی، اک سمت زمانہ ہے

اُس کو بھی بچانا ہے، خود کو بھی بچانا ہے

 

ہم سے نہ کوئی اُلجھے، ہم لوگ ہیں دیوانے

آندھی سے ہمیں ضد ہے، اک دیپ جلانا ہے

 

ہم دونوں کو بانٹا ہے، دریا کے کناروں نے

اس سمت بھی رہنا ہے، اُس سمت بھی جانا ہے

 

یہ عشق تو فطرت ہے، کیسے ہو جُدا مُجھ سے

یہ روگ ہے مٹی کا اور صدیوں پُرانا ہے

 

بستی ہی چھُپالی پھر، اُس شخص نے ہاتھوں میں

اتنا جو کہا میں نے، اک شہر بسانا ہے

 

اک آنکھ ہے صحرا تو، اک آنکھ سمندر ہے

کیا جانیئے اس دل میں کس کس کو سمانا ہے

 

کہنے کو بہت کُچھ ہے، اے سعد مگر ہم نے

اک وعدہ نبھانا ہے، اک درد چھُپانا ہے

سعد اللہ شاہ

admin

http://fruit-chat.com

میری موج میری سوچ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *