میں نے کہا

میں نے کہا کہ پیا کے رشتے نہیں رہے

 

‎میں نے کہا وہ پیار کے رشتے نہیں رہے

‎کہنے لگی کہ تم بھی تو ویسے نہیں رہے

‎پوچھاگھروں میں کھڑکیاں کیوں ختم ہوگئیں؟

‎بولی کہ اب وہ جھانکنے والے نہیں رہے

‎پوچھا کہاں گئے مرے یارانِ خوش خصال

‎کہنے لگی کہ وہ بھی تمہارے نہیں رہے

‎اگلا سوال تھا کہ مری نیند کیا ہوئی؟

‎بولی تمہاری آنکھ میں سپنے نہیں رہے

‎پوچھا کروگی کیا جو اگر میں نہیں رہا؟

‎بولی یہاں تو تم سے بھی اچھے ، نہیں رہے

‎آخر وہ پھٹ پڑی کہ سنو اب مرے سوال

‎کیا سچ نہیں کہ تم بھی کسی کے نہیں رہے

‎گو آج تک دیا نہیں تم نے مجھے فریب

‎پر یہ بھی سچ ہے تم کبھی میرے نہیں رہے

‎اب مدتوں کے بعد یہ آئے ہو دیکھنے

‎کتنے چراغ ہیں ابھی ، کتنے نہیں رہے!

‎میں نے کہا مجھے تری یادیں عزیز تھیں

‎ان کے سوا کبھی ، کہیں اُلجھے نہیں رہے

‎کیا یہ بہت نہیں کہ تری یاد کے چراغ

‎اتنے جلے،کہ مُجھ میں اندھیرے نہیں رہے

‎کہنے لگی تسلّیاں کیوں دے رہے ہو تم

‎کیا اب تمہاری جیب میں وعدے نہیں رہے

‎بہلا نہ پائیں گے یہ کھلونے حروف کے

‎تم جانتے ہو ہم کوئی بچّے نہیں رہے

‎بولی کریدتے ہو تم اُس ڈھیر کو جہاں

‎بس راکھ رہ گئی ہے ، شرارے نہیں رہے

‎پوچھا تمہیں کبھی نہیں آیا مرا خیال

‎کیا تم کو یاد یار پرانے نہیں رہے.

‎کہنے لگی میں ڈھونڈتی تیرا پتہ ، مگر

‎جن پر نشاں لگے تھے ، وہ نقشے نہیں رہے

‎تیرے بغیر شہرِ سخن سنگ ہو گیا

‎ہونٹوں پہ اب وہ ریشمی لہجے نہیں رہے

‎جن سے اُتر کے آتی دبے پاؤں تیری یاد

‎خوابوں میں بھی وہ کاسنی زینے نہیں رہے

‎میں نے کہا ، جو ہو سکے ، کرنا ہمیں معاف

‎تم جیسا چاہتی تھیں ، ہم ایسے نہیں رہے

‎ہم عشق کے گدا ، تیرے در تک تو آ گئے

‎لیکن ہمارے ہاتھ میں کاسے نہیں رہے

‎اب یہ تری رضا ہے،کہ جوچاہے، سو کرے

‎ورنہ کسی کے کیا ، کہ ہم اپنے نہیں رہے

 

مرسلہ:فاطمہ علی ،گجرات

Naveed

I am an ordinary man.

Related post