بدن کا بوجھ خود پر اٹھاے پھرتے ہیں
بدن کے بوجھ کو. خود پر اٹھائے پھرتے ہیں
زمیں پہ لوگ نہیں صرف ، سائے پھرتے ہیں
ہر ایک شخص کو کہنا پڑا کہ خوش ہیں بہت
اجڑ کے حرمتِ دل کو بچائے پھرتے ہیں۔۔۔۔۔
گنوا نہ دیں کہیں عجلت پرستیوں میں تجھے
یہ سوچ کر تجھے خود سے لگائے پھرتے ہیں
یوں اضطراب میں ، “دن اور رات” گھومتے ہیں
کہ جیسے گردشِ غم کے ستائے پھرتے ہیں
ابھی تلک تو ہم اسباب ڈھو رہے تھے فقط
ذرا سی مل گئی فرصت ، سرائے پھرتے ہیں
بچھے گی ان کے بھی دل میں کبھی صفِ ماتم
خوشی خوشی ہمیں اب جو گنوائے پھرتے ہیں
عجیب زعم بصارت کے مارے لوگ ہیں یہ
چراغ ہاتھ میں ہیں اور بجھائے پھرتے ہیں
شعر کدہ