آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے– فیض احمد فیض
- شعر کدہ
فیض احمد فیض
- 537
آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے
بام مینا سے ماہتاب اترے
دست ساقی میں آفتاب آئے
ہر رگ خوں میں پھر چراغاں ہو
سامنے پھر وہ بے نقاب آئے
عمر کے ہر ورق پہ دل کی نظر
تیری مہر و وفا کے باب آئے
کر رہا تھا غم جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے
نہ گئی تیرے غم کی سرداری
دل میں یوں روز انقلاب آئے
جل اٹھے بزم غیر کے در و بام
جب بھی ہم خانماں خراب آئے
اس طرح اپنی خامشی گونجی
گویا ہر سمت سے جواب آئے
فیضؔ تھی راہ سر بسر منزل
ہم جہاں پہنچے کامیاب آئے
مزید پڑھیں