بہت سیاہ ہے یہ رات لیکن – فیض احمد فیض
بہت سیاہ ہے یہ رات لیکن
بہت سیاہ ہے یہ رات لیکن
اسی سیاہی میں رونما ہے
وہ نہر خوں جو مری صدا ہے
اسی کے سائے میں نور گر ہے
وہ موج زر جو تری نظر ہے
وہ غم جو اس وقت تیری بانہوں
کے گلستاں میں سلگ رہا ہے
وہ غم جو اس رات کا ثمر ہے
کچھ اور تپ جائے اپنی آہوں
کی آنچ میں تو یہی شرر ہے
ہر اک سیاہ شاخ کی کماں سے
جگر میں ٹوٹے ہیں تیر جتنے
جگر سے نوچے ہیں اور ہر اک
کا ہم نے تیشہ بنا لیا ہے
مزید پڑھیں