مرے ہمدم مرے دوست! – فیض احمد فیض
- فیض احمدفیض
- December 13, 2022
- 3
- 178
- 7 minutes read
گر مجھے اس کا یقیں ہو مرے ہمدم مرے دوست
گر مجھے اس کا یقیں ہو مرے ہمدم مرے دوست
گر مجھے اس کا یقیں ہو کہ ترے دل کی تھکن
تری آنکھوں کی اداسی تیرے سینے کی جلن
میری دل جوئی مرے پیار سے مٹ جائے گی
گر مرا حرف تسلی وہ دوا ہو جس سے
جی اٹھے پھر ترا اجڑا ہوا بے نور دماغ
تیری پیشانی سے ڈھل جائیں یہ تذلیل کے داغ
تیری بیمار جوانی کو شفا ہو جائے
گر مجھے اس کا یقیں ہو مرے ہمدم مرے دوست
روز و شب شام و سحر میں تجھے بہلاتا رہوں
میں تجھے گیت سناتا رہوں ہلکے شیریں
آبشاروں کے بہاروں کے چمن زاروں کے گیت
آمد صبح کے، مہتاب کے، سیاروں کے گیت
تجھ سے میں حسن و محبت کی حکایات کہوں
کیسے مغرور حسیناؤں کے برفاب سے جسم
گرم ہاتھوں کی حرارت میں پگھل جاتے ہیں
کیسے اک چہرے کے ٹھہرے ہوئے مانوس نقوش
دیکھتے دیکھتے یک لخت بدل جاتے ہیں
کس طرح عارض محبوب کا شفاف بلور
یک بیک بادۂ احمر سے دہک جاتا ہے
کیسے گلچیں کے لیے جھکتی ہے خود شاخ گلاب
کس طرح رات کا ایوان مہک جاتا ہے
یونہی گاتا رہوں گاتا رہوں تیری خاطر
گیت بنتا رہوں بیٹھا رہوں تیری خاطر
پر مرے گیت ترے دکھ کا مداوا ہی نہیں
نغمہ جراح نہیں مونس و غم خوار سہی
گیت نشتر تو نہیں مرہم آزار سہی
تیرے آزار کا چارہ نہیں نشتر کے سوا
اور یہ سفاک مسیحا مرے قبضے میں نہیں
اس جہاں کے کسی ذی روح کے قبضے میں نہیں
ہاں مگر تیرے سوا تیرے سوا تیرے سوا
مزید پڑھیں
3 Comments
[…] مرے ہمدم مرے دوست! – فیض احمد فیض […]
[…] مرے ہمدم مرے دوست! – فیض احمد فیض […]
[…] مرے ہمدم مرے دوست! – فیض احمد فیض […]