تنہائی فیض احمد فیض

تنہائی

پھر کوئی آیا دل زار نہیں کوئی نہیں

پھر کوئی آیا دل زار نہیں کوئی نہیں

  راہرو ہوگا کہیں اور چلا جائے گا


ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ

سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہ گزار
اجنبی خاک نے دھندلا دیئے قدموں کے سراغ


گل کرو شمعیں بڑھا دو مے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو


اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا

مزیدپڑھیں

6 Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *