بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے–فیض احمد فیض

فیض احمد فیض

فیض احمد فیض

بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے

بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے

تم اچھے مسیحا ہو شِفا کیوں نہیں دیتے

دردِ شبِ ہجراں کی جزا کیوں نہیں دیتے

خونِ دلِ وحشی کا صِلا کیوں نہیں دیتے

مِٹ جائے گی مُخلوق تو انصاف کرو گے

منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے

ہاں نکتہ ورو لاؤ لب و دل کی گواہی

ہاں نغمہ گرو ساز صدا کیوں نہیں دیتے

پیمانِ جُنوں ہاتھوں کو شرمائے گا کب تک

دل والو! گریباں کا پتا کیوں نہیں دیتے

بربادیِ دل جبر نہیں فیض کسی کا

وہ دشمنِ جاں ہے تو بُھلا کیوں نہیں دیتے

  فیض احمد فیض نے دوران اسیری کیمپ جیل

میں تحریر کی

admin

http://fruit-chat.com

میری موج میری سوچ

6 Comments

Comments are closed.