ہنسی چھپا بھی گیا اور نظر ملا بھی گیا
- منیر نیازی
منیر نیازی
- 291
ہنسی چھپا بھی گیا اور نظر ملا بھی گیا
ہنسی چھپا بھی گیا اور نظر ملا بھی گیا
یہ اک جھلک کا تماشا جگر جلا بھی گیا
اٹھا تو جا بھی چکا تھا عجیب مہماں تھا
صدائیں دے کے مجھے نیند سے جگا بھی گیا
غضب ہوا جو اندھیرے میں جل اٹھی بجلی
بدن کسی کا طلسمات کچھ دکھا بھی گیا
نہ آیا کوئی لب بام شام ڈھلنے لگی
وفور شوق سے آنکھوں میں خون آ بھی گیا
ہوا تھی گہری گھٹا تھی حنا کی خوشبو تھی
یہ ایک رات کا قصہ لہو رلا بھی گیا
چلو منیر چلیں اب یہاں رہیں بھی تو کیا
وہ سنگ دل تو یہاں سے کہیں چلا بھی گیا