نہ سیو ہونٹ نہ خوابوں میں صدا دو ہم کو
نہ سیو ہونٹ نہ خوابوں میں صدا دو ہم کو
مصلحت کا یہ تقاضا ہے بھلا دو ہم کو
جرم سقراط سے ہٹ کر نہ سزا دو ہم کو
زہر رکھا ہے تو یہ آب بقا دو ہم کو
ہم حقیقت ہیں تو تسلیم نہ کرنے کا سبب
ہاں اگر حرف غلط ہیں تو مٹا دو ہم کو
خضر مشہور ہو ، الیاس بنے پھرتے ہو
کب سے ہم گم ہیں ہمارا تو پتا دو ہم کو
شورش عشق میں ہے حسن برابر کا شریک
سوچ کر جرم تمنا کی سزا دو ہم کو
کون دیتا ہے محبت کو پرستش کا مقام
تم یہ انصاف سے سوچو تو دعا دو ہم کو
آج ماحول کو آرائش جاں سے ہے گریز
کوئی دانشؔ کی غزل لا کے سنا دو ہم کو…!
احسان دانش