سرمائیہ حیات
مجمع تھا یاروں کا اور روح تک تنہائی تھی
اک یادسے یارانہ وہ بھی نہ آپنائی تھی
وہ لفظ جو ہو یے نہ کبھی زباں سے ادا
ہم نے ان جرموں بیانوں کی سزا پائی تھی
وہ جو بے مثل تھے، جب خود سےٹکراے
کرچیاں ایسی بکھری کہ پھر نہ سمٹ آئی تھی
وہ پھول کہ جنہیں سینچا تھا کبھی ارمانوں سے
انکی خوشبو بہاروں میں نہ راس آئی تھی
کسی کی آہیں جو اب تک سونے نہیں دیتی
ایتنے راندہ نہ تھےکہ دعائیں نہ اثرلائی تھی
وہ جو تھے کبھی ہر رنگ میں جان محفل
جوبھٹکے ،ویرانی روح تک اتر آئی تھی
وہ چاند وہ ستارے سے میرے احباب
وقت طلب رات آماوس سی اتر آئی تھی
دل ہےناداں کہ اب بھی ہے کوئی آس ِنوید
بوئے خواب تو کانٹوں کی فصل بھر آئی تھی
نویداسلم