پھر یوں ہوا کے ساتھ تیرا چھوڑنا پڑا

پھر یوں ہوا کے ساتھ تیرا چھوڑنا پڑا

پھر یوں ہوا کے ساتھ تیرا چھوڑنا پڑا

ثابت ہوا کے لازم و ملزوم کچھ نہیں

پھر یوں ہوا کہ راستے یکجا نہیں رہے

وہ بھی انا پرست تھا میں بھی انا پرست

پھر یوں ہوا کہ ہاتھ سے، کشکول گر گیا

خیرات لے کے مجھ سے چلا تک نہیں گیا.

پھر یوں ہوا کہ وقت کر تیور بدل گئے

پھر یوں ہواکہ لفظ اور جذبات بدل گئے

پھر یوں ہوا کہ حشر کے سامان ہوگئے

پھر یوں ہوا کہ شہر بیاباں ہوگئے

پھر یوں ہوا کہ راحتیں کافور ہوگئیں

پھر یوں ہوا کہ بستیاں بے نور ہوگئیں

پھر یوں ہوا کہ کوئی شناسا نہیں رہا

پھر یوں ہوا کہ درد میں شدت نہیں رہی

پھر یوں ہوا کہ ہو گیا مصروف وہ بہت

اور ہمیں یاد کرنے کی فرصت نہیں رہی

اب کیا کسی کو چاہیں کہ ہم کو تو ان دنوں

خود اپنے آپ سے بھی محبت نہیں رہی

پھر یوں ہوا کہ دل میں کسی کو بسا لیا

پھر یوں ہوا کہ، خواب سجائے تمام عُمر

پھر یوں ہوا کہ دکھ ہمیں محبوب ہو گئے

پھر یوں ہوا کہ، دل سے لگائے تمام عُمر

پھر یوں ہوا کہ اور کسی کے نہ ہو سکے

پھر یوں ہوا کہ وعدے نبھائے تمام عُمر

پھر یوں ہوا کہ راستے بے نشان ہو گئے

پھر یوں ہوا کہہ ہمسفر کہیں کھو گئے

پھر یوں ہوئے کہ زندگی بے رنگ ہو گئی

پھر یوں ہوا کہ طلب ہماری بھی نہ رہی

پھر یوں ہوا کہ اک صدا انتظار میں

رکے ہوئے آرمان پتھر کے ہو گئے

تجدید  فروٹ چاٹ

 

 

Naveed

I am an ordinary man.

Related post