تراش کر میرے بازو اُڑان چھوڑ گیا–پروین شاکر

تراش کر میرے بازو اُڑان چھوڑ گیا

ہوا کے پاس وہ برہنہ مکان چھوڑ گیا

 

رفاقتوں کا میری اسکو دھیان کتنا تھا

زمین لے لی مگر آسْمان چھوڑ گیا

 

عجیب شخص تھا بارش کا رنگ دیکھ کے بھی

کھلے دریچے پے اک پھول دان چھوڑ گیا

 

جو بادلوں سے بھی مجھ کو چھپا کے رکھتا تھا

بڑھی ہے دھوپ تو بے سائباں چھوڑ گیا

 

عقاب کو تھی غرض فاختہ پکڑنے سے

جو گر گئی تو یونہی نیم جانِ چھوڑ گیا

 

نا جانے کون سا آسیب دل میں بستا ہے

کے جو بھی ٹھہرا وہ آخر مکان چھوڑ گیا

پروین شاکر

Avatar of admin

admin

Related post