مجھے باغباں سے گلہ یہ ہے کہ چمن سے بے خبری رہی – قمرجلالوی
- قمر جلالوی
قمر جلالوی
- 537
مجھے باغباں سے گلہ یہ ہے کہ چمن سے بے خبری رہی
مجھے باغباں سے گلہ یہ ہے کہ چمن سے بے خبری رہی
کہ ہے نخل گل کا تو ذکر کیا کوئی شاخ تک نہ ہری رہی
مرا حال دیکھ کے ساقیا کوئی بادہ خوار نہ پی سکا
ترے جام خالی نہ ہو سکے مری چشم تر نہ بھری رہی
میں قفس کو توڑ کے کیا کروں مجھے رات دن یہ خیال ہے
یہ بہار بھی یوں ہی جائے گی جو یہی شکستہ پری رہی
مجھے علم تیرے جمال کا نہ خبر ہے تیرے جلال کی
یہ کلیم جانے کہ طور پر تری کیسی جلوہ گری رہی
میں ازل سے آیا تو کیا ملا جو میں جاؤں گا تو ملے گا کیا
مری جب بھی در بدری رہی مری اب بھی در بدری رہی
یہی سوچتا ہوں شب الم کہ نہ آئے وہ تو ہوا ہے کیا
وہاں جا سکی نہ مری فغاں کہ فغاں کی بے اثری رہی
شب وعدہ وہ جو نہ آ سکے تو قمر کہوں گا یہ چرخ سے
ترے تارے بھی گئے رائیگاں تری چاندنی بھی دھری رہی
مزیدپڑھیں