پیتے ہی سرخ آنکھیں ہیں مست شراب کی – قمرجلالوی
- قمر جلالوی
قمر جلالوی
- 285
پیتے ہی سرخ آنکھیں ہیں مست شراب کی
گرمی تو دیکھو ڈوبے ہوئے آفتاب کی
رخ سے جدا جو حشر میں تم نے نقاب کی
دنیا یہ تاب لائے گی دو آفتاب کی
ساقی یہ رقم سچ ہے جو مجھ پر حساب کی
بوتل پہ ہاتھ رکھ کے قسم کھا شراب کی
کیا کم تھا حسن باغ کہ اے باغبان حسن
اک شاخ تو نے اور لگا دی شباب کی
وہ تو رہا کلیم کے اصرار کا جواب
اور یہ جو تو نے طور کی مٹی خراب کی
موسیٰ کو اس نے سر پہ چڑھایا بھی تھا بہت
جلوے نے خوب طور کی مٹی خراب کی
پھیرو نہ آنکھیں تم مرے اشکوں کے جوش پر
طوفاں میں ڈوبتی نہیں کشتی حباب کی
اللہ اس کا کچھ بھی جوانی پہ حق نہیں
برسوں دعائیں مانگی ہیں جس نے شباب کی
رکھیے معاف شیخ جی مسجد میں ہجو مے
باتیں خدا کے گھر میں نہ کیجے شراب کی
باغ جہاں میں اور بھی تم سے تو ہیں مگر
ہر پھول میں نہیں ہے نزاکت گلاب کی
جب سے گئے ہیں دیکھ کے تارے وہ اے قمر
صورت بدل گئی ہے شب ماہتاب کی
بلا سے ہو شام کی سیاہی کہیں تو منزل مری ملے گی - قمر جلالوی ہٹی زلف ان کے چہرے سے مگر آہستہ آہستہ - قمر جلالوی آہ کو سمجھے ہو کیا دل سے اگر ہو جائے گی - قمرجلالوی منانے آئے ہو دنیا میں جب سے روٹھ گیا -قمرجلالوی اے مرے ہم نشیں چل کہیں اور چل - قمر جلالوی سجدے ترے کہنے سے میں کر لوں بھی تو کیا ہو - قمر جلالوی