تم کو ہم خاک نشینوں کا خیال آنے تک – قمر جلالوی
- قمر جلالوی
قمر جلالوی
- 340
تم کو ہم خاک نشینوں کا خیال آنے تک
شہر تو شہر بدل جائیں گے ویرانے تک
دیکھیے محفل ساقی کا نتیجہ کیا ہو
بات شیشے کی پہنچنے لگی پیمانے تک
اس جگہ بزم ساقی نے بٹھایا ہے ہمیں
ہاتھ پھیلائیں تو جاتا نہیں پیمانے تک
صبح ہوتی نہیں اے عشق یہ کیسی شب ہے
قیس و فرہاد کے دہرا لئے افسانے تک
پھر نہ طوفان اٹھیں گے نہ گرے گی بجلی
یہ حوادث ہیں غریبوں ہی کے مٹ جانے تک
میں نے ہر چند بلا ٹالنی چاہی لیکن
شیخ نے ساتھ نہ چھوڑا مرا مے خانے تک
وہ بھی کیا دن تھے کہ گھر سے کہیں جاتے ہی نہ تھے
اور گئے بھی تو فقط شام کو مے خانے تک
میں وہاں کیسے حقیقت کو سلامت رکھوں
جس جگہ رد و بدل ہو گئے افسانے تک
باغباں فصل بہار آنے پہ وعدہ تو قبول
اور اگر ہم نہ رہے فصل بہار آنے تک
اور تو کیا کہوں اے شیخ تری ہمت پر
کوئی کافر ہی گیا ہو ترے مے خانے تک
اے قمر شام کا وعدہ ہے وہ آتے ہوں گے
شام کہلاتی ہے تاروں کے نکل آنے تک
اے قمر صبح ہوئی اب تو اٹھو محفل سے
شمع گل ہو گئی رخصت ہوئے پروانے تک