برگشتۂ یزدان سے کچھ بھول ہوئی ہے – ساغرصدیقی
- ساغر صدیقی
ساغر صدیقی
- 367
برگشتۂ یزدان سے کچھ بھول ہوئی ہے
برگشتۂ یزدان سے کچھ بھول ہوئی ہے
بھٹکے ہوئے انسان سے کچھ بھول ہوئی ہے
تا حد نظر شعلے ہی شعلے ہیں چمن میں
پھولوں کے نگہبان سے کچھ بھول ہوئی ہے
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
ہنستے ہیں مری صورت مفتوں پہ شگوفے
میرے دل نادان سے کچھ بھول ہوئی ہے
حوروں کی طلب اور مے و ساغر سے ہے نفرت
زاہد ترے عرفان سے کچھ بھول ہوئی ہے
مزید پڑھیں
Related Posts:
Tags: اردو شاعری