بات پھولوں کی سنا کرتے تھے – ساغرصدیقی
- ساغر صدیقی
ساغر صدیقی
- 356
بات پھولوں کی سنا کرتے تھے
بات پھولوں کی سنا کرتے تھے
ہم کبھی شعر کہا کرتے تھے
مشعلیں لے کے تمہارے غم کی
ہم اندھیروں میں چلا کرتے تھے
اب کہاں ایسی طبیعت والے
چوٹ کھا کر جو دعا کرتے تھے
ترک احساس محبت مشکل
ہاں مگر اہل وفا کرتے تھے
بکھری بکھری ہوئی زلفوں والے
قافلے روک لیا کرتے تھے
آج گلشن میں شگوفے ساغرؔ
شکوۂ باد صبا کرتے تھے
مزیدپڑھیں
Related Posts:
Tags: اردو شاعری