بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے -ساغرصدیقی
- ساغر صدیقی
ساغر صدیقی
- 326
بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے
منزل نہیں ہوں خضر نہیں راہزن نہیں
منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجیے
میری نگاہ شوق سے ہر گل ہے دیوتا
میں عشق کا خدا ہوں مجھے یاد کیجیے
نغموں کی ابتدا تھی کبھی میرے نام سے
اشکوں کی انتہا ہوں مجھے یاد کیجیے
گم صم کھڑی ہیں دونوں جہاں کی حقیقتیں
میں ان سے کہہ رہا ہوں مجھے یاد کیجیے
ساغر کسی کے حسن تغافل شعار کی
بہکی ہوئی ادا ہوں مجھے یاد کیجیے
مزیدپڑھیں