تری نظر کے اشاروں سے کھیل سکتا ہوں – ساغرصدیقی
- ساغر صدیقی
ساغر صدیقی
- 300
تری نظر کے اشاروں سے کھیل سکتا ہوں
جگر فروز شراروں سے کھیل سکتا ہوں
تمہارے دامن رنگیں کا آسرا لے کر
چمن کے مست نظاروں سے کھیل سکتا ہوں
کسی کے عہد محبت کی یاد باقی ہے
بڑے حسین سہاروں سے کھیل سکتا ہوں
مقام ہوش و خرد انتقام وحشت ہے
جنوں کی راہ گزاروں سے کھیل سکتا ہوں
مجھے خزاں کے بگولے سلام کرتے ہیں
حیا فروش چناروں سے کھیل سکتا ہوں
شراب و شعر کے دریا میں ڈوب کر ساغرؔ
سرور و کیف کے دھاروں سے کھیل سکتا ہوں
مزید پڑھیں
Related Posts:
Tags: اردو شاعری