• 11/12/2023

شاعر انقلاب حبیب جالب

حبیب جالب اورماہ و سال کا آئینہ

حبیب جالب/Habib Jalib

حبیب جالب

پیدائش 24 مارچ1928 / وفات 12مارچ 1993

حبیب جالب اور شاعری

حبیب جالب کو شاعری کا شوق اوائل عمری سے ہی تھا۔

پیدائش و ابتدائی تعلیم

 حبیب جالب 24 مارچ 1928 کو عید الفطر کے دن مڈھ رانجھا، ہوشیار پور، پنجاب، جو اس وقت برطانوی ہندوستان کا حصہ تھا، میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گاؤں کے ایک اسکول سے حاصل کی اور مڈل تک اپنی تعلیم جاری رکھی۔ دینی تعلیم کے لیے مولانا غلام رسول عالمپوری کے شاگرد ہوئے۔

دہلی آمد 

حبیب جالب 1943 میں دہلی آگئے ، انہوں نے موری گیٹ دہلی کے سکول اینگلو عربک ہائی اسکول میں داخلہ لیا،اور تعلیمی سفر جاری رکھا۔

تعلیمی سفر اور پاکستان

پاکستان بننے کے بعد 1949  میں تعلیمی سلسلہ دوبارہ شروع کیا اور کراچی کے جیکب لائن کے ہائیر سیکنڈری اسکول میں داخلہ لیا۔

حبیب جالب کی شادی 6محرم 1956 کو اپنے چچا کی بیٹی سے ہوئی۔

حبیب جالب اور شاعری

حبیب جالب کو شاعری کا شوق اوائل عمری سے ہی تھا۔

پہلا شعر

 انہوں نے ساتویں جماعت کے امتحان کے دوران پہلا شعر لکھا، انہوں نے "امشب" کا جملہ لکھتے ہوئے جملے کے بجائے ایک شعر لکھا۔

 وعدہ کیا تھا کہ امشب ضرور کریں گے۔

وعدہ شکن کو دیکھنے کے وقت سحر ہوا۔

اسی سکول میں 1945 میں یہ اشعار پڑھ کر اپنا مستقبل شعرا کے ساتھ طے کر لیا۔

مدتیں ہو گئیں خطا کرتے
شرم آتی ہے اب دعا کرتے

تقسیم کے بعد بھی ہندوستان کے کئی شہروں میں شاعری پڑھنے کا انتظام کیا گیا۔متعدد مرتبہ بھارت گئے۔

عملی زندگی

سنہ1945 میں آپ نے جنگ عظیم کے سپاہیوں کے لیے چنے کی بوریاں بھریں اور کمائی ہوئی اجرت سے عملی زندگی کا آغااز کیا۔

 انہوں نے تحریک آزادی میں عملی طور پرشمولیت رکھی، تیمور پور، دہلی میں تحریک پاکستان  میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

حبیب جالب کی نئی شروعات

قیام پاکستان کے بعد وہ کراچی بندرگاہ پر مزدور کی حیثیت سے کام کرتے رہے اور اس دوران شاعری جاری رکھی اور پہلا تخلص "حبیب احمد مست میانوی" اختیار کیا۔

کچھ عرصے کے لیے انہوں نے جھنگ، ڈان وغیرہ اخبارات کی پروف ریڈنگ بھی کی۔

کوہ نور ٹیکسٹائیل مل

 لائل پور، 1952 میں کوہ نور ٹیکسٹائل ملز میں ایک مشہور شعری مقابلہ منعقد ہوا۔ تقریب میں موجود سعید سہگل نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے شاعر کو نوکری اور مکان دیا۔

کچھ دنوں بعد اک مشاہرے میں

شعر ہوتا ہے اب مہینوں میں

زندگی ڈھل گئی ہے مشینوں میں
پیار کی روشنی نہیں ملتی
ان مکانوں میں ان مکینوں میں۔

پھر کیا تھا نہ مکاں رہا نہ مکیں اور نوکری سے فارغ کر دیے گئے۔

 

حبیب جالب کا سیاسی سفر

سنہ1952 میں کامریڈ حیدر بخش جتوئی کی ہاری تحریک میں شمولیت اختیار کی، اور 1953 میں پہلی بار اسی تحریک کے کارکن کی حیثیت سے کراچی میں گرفتار ہوئے۔

جنرل ایوب کا دور

جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں مسلسل تنقید کی وجہ سے انکے ملک چھوڑنے پر پابندی لگا دی گئی۔

کہیں گیس کا دھواں ہے
کہیں گولیوں کی بارش
شب عہد کم نگاہی
تجھے کس طرح سراہیں

سنہ1961 میں شاہراہ آفاق نظم جنرل ایوب خان کے خود ساختہ آئین کے خلاف لکھی.

دیپ جس کا محلات ہی جلے میں
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو، صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
میں بھی خائف نہیں تختہ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
پھول شاخوں پہ کھلنے لگے، تم کہو
جام رندوں کو ملنے لگے، تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے، تم کہو
اس کھلے جھوٹ کو، ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر میں تمہیں کس طرح سے کہوں
تم نہیں چارہ گر، کوئی مانے، مگر
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

 محترم فاطمہ جناح کے ساتھ مسلسل الیکش کی تحریک میں ساتھ رہے والے 5 افراد میں حبیب جالب شامل تھے۔

جنرل یحییٰ کا دور

جرل یحیی کے دور می ایک محفل میں انکی تصویر کی طرف اشارہ کر کے یہ شعر پڑھا

تم سے پہلے جو شخص یہاں تخت نشیں تھا۔

اسکو بھی اپنے خدا ہونے پر اتنا ہی یقین تھا۔

چند دن بعد انکو ایک بدمعاش کو چاقو مارنے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔

سانحہ مشرقی پاکستان پر ردعمل

سنہ1970 میں لاہور میں کسان تحریک کے سٹیج سے اعلان کیا کہ یحییٰ خان اور نورالامین اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملک کو توڑ رہے ہیں۔ انہوں نے پولیس سے کہا کہ وہ میرا بیان لکھ لو۔ آج کے بعد خاموش رہنا بے غیرتی اور جیل سے باہر رہنا بزدلی ہے۔ 

حبیب جالب اور حیدرآباد سازش کیس

سنہ1976 میں ان کے بارہ سالہ بیٹے کی موت کے تیسرے دن حیدر آباد فورسز نے ان کے گھر کو گھیرے میں لے کر سازش کیس میں گرفتار کر لیا۔

اس کیس میں خان عبدالولی خان، میر غوث بخش بزنجو، عطاء اللہ مینگل، خیر بخش مری اور قاسم ضیاء بھی ملوث ٹھراتے ہوئے کل 55 افراد گرفتار ہوئے تھے، جیل میں  جن افراد کو پھاسی گھاٹ کے سامنےکی کوٹھری میں رکھا گیا۔ دوران ٹرائل لکھتے ہیں۔

کون کہتا ہے، اسیروں کی رہائی ہوگی

یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی

ہم غریبوں کا امیروں پہ ابھی تکیہ ہے

ہم غریبوں کی ابھی اور پٹائی ہوگی

وہ 1978 میں 14 ماہ بعد ضمانت پر رہا ہوئے۔میاں محمود قصوری نے آپ کا مقدمہ لڑا۔

Haiderabad terbunal resolved

شاعر عوام اور الیکش

 انہوں نے 1970 کے انتخابات میں  حصہ لیا، شاعر عوام کو جالب کو 1700  لوگوں نے ووٹ دیا۔ وہ عوام کے شاعر اور انقلاب کے شاعر کے طور پر جانے جاتے تھے لیکن انہی لوگوں نے انہیں ووٹ نہیں دیا۔

ذولفقار علی بھٹو کامارشل لاء

ذوالفقار علی بھٹو کے سامنے ایک تقریب میں ان کے سامنے اپنی نظم "6 ستمبر" سنانے پر گرفتار کر لیا گیا۔.

سنہ1980 میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی قلم نہیں رکا۔

ظلمت کو ضیا، صر صر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا

سنہ1988 میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں حبیب جالب کا پاسپورٹ اعزاز احسن کی کوششوں سے بحال ہوا۔ ایک موقع پر کہا۔۔

حال اب تک وہی ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے

حبیب جالب کے اعزازات

سنہ1982 میں لاہور ہائی کورٹ بار نے ایک خصوصی حکم نامے کے ذریعے حبیب جالب کو اعزازی رکنیت دی اور وہ بار کے واحد غیر وکیل رکن تھے۔

عراق، ایران اور لیبیا نے حبیب جالب کو مالی امداد کی پیشکش کی لیکن انہوں نے کسی سے مالی امداد قبول نہیں کی۔

اور13 مارچ 1993 کو 65 سال کی عمر میں جالب شیخ زید ہسپتال میں انتقال کر گئے۔