• 11/12/2023

سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے -احمد فراز

سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے


شکوہ ِ ظلمتِ شب سے تو بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے


کتنا آساں تھا تیرے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی اِک عمر لگی جاں سے جاتے جاتے


جشنِ مقتل ہی نہ برپا ہوا ورنہ ہم
پا بجولاں ہی سہی ، ناچتے گاتے جاتے


اس کی وہ جانے اسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا
تم اپنی طرف سے تو فراز نبھاتے جاتے۔۔۔

احمد فراز کی شاعری

Related post