سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے -احمد فراز
- احمد فراز کی شاعری
احمد فراز
- 14/11/2022
- 466
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے
شکوہ ِ ظلمتِ شب سے تو بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
کتنا آساں تھا تیرے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی اِک عمر لگی جاں سے جاتے جاتے
جشنِ مقتل ہی نہ برپا ہوا ورنہ ہم
پا بجولاں ہی سہی ، ناچتے گاتے جاتے
اس کی وہ جانے اسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا
تم اپنی طرف سے تو فراز نبھاتے جاتے۔۔۔