دور جا کر قریب ہو جتنے – فیض احمد فیض
- فیض احمد فیض
فیض احمد فیض
- 12/12/2022
- 443
دور جا کر قریب ہو جتنے
ہم سے کب تم قریب تھے اتنے
اب نہ آؤ گے تم نہ جاؤ گے
وصل ہجراں بہم ہوئے کتنے
چاند نکلے کسی جانب تری زیبائی کا
رنگ بدلے کسی صورت شب تنہائی کا
دولت لب سے پھر اے خسرو شیریں دہناں
آج ارزاں ہو کوئی حرف شناسائی کا
گرمئی رشک سے ہر انجمن گل بدناں
تذکرہ چھیڑے تری پیرہن آرائی کا
صحن گلشن میں کبھی اے شہ شمشاد قداں
پھر نظر آئے سلیقہ تری رعنائی کا
ایک بار اور مسیحائے دل دل زدگاں
کوئی وعدہ کوئی اقرار مسیحائی کا
ساز و سامان بہم پہنچا ہے رسوائی کا
کب تک دل کی خیر منائیں کب تک رہ دکھلاؤ گے
کب تک چین کی مہلت دو گے کب تک یاد نہ آؤ گے
بیتا دید امید کا موسم خاک اڑتی ہے آنکھوں میں
کب بھیجو گے درد کا بادل کب برکھا برساؤ گے
عہد وفا یا ترک محبت جو چاہو سو آپ کرو
اپنے بس کی بات ہی کیا ہے ہم سے کیا منواؤ گے
کس نے وصل کا سورج دیکھا کس پر ہجر کی رات ڈھلی
گیسوؤں والے کون تھے کیا تھے ان کو کیا جتلاؤ گے
فیضؔ دلوں کے بھاگ میں ہے گھر بھرنا بھی لٹ جانا بھی
تم اس حسن کے لطف و کرم پر کتنے دن اتراؤ گے
مزید پڑھیں