• 12/12/2023

تنہائی فیض احمد فیض

تنہائی

پھر کوئی آیا دل زار نہیں کوئی نہیں

پھر کوئی آیا دل زار نہیں کوئی نہیں

  راہرو ہوگا کہیں اور چلا جائے گا


ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ

سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہ گزار
اجنبی خاک نے دھندلا دیئے قدموں کے سراغ


گل کرو شمعیں بڑھا دو مے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو


اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا

مزیدپڑھیں

فیض احمد فیض

فیض احمد فیض کی شاعری

Related post