تنہائی فیض احمد فیض
- فیض احمد فیض
فیض احمد فیض
- 14/12/2022
- 978
تنہائی
پھر کوئی آیا دل زار نہیں کوئی نہیں
پھر کوئی آیا دل زار نہیں کوئی نہیں
راہرو ہوگا کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہ گزار
اجنبی خاک نے دھندلا دیئے قدموں کے سراغ
گل کرو شمعیں بڑھا دو مے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا
مزیدپڑھیں