ایرانی طلبا کے نام
- فیض احمد فیض
فیض احمد فیض
- 11/04/2023
- 344
جو امن اور آزادی کی جدوجہد میں کام آئے
یہ کون سخی ہیں
جن کے لہو کی
اشرفیاں، چھن چھن، چھن چھن،
دھرتی کے پیہم پیاسے
کشکول میں ڈھلتی جاتی ہیں
کشکول کو بھرتی جاتی جاتی ہیں
یہ کون جواں ہیں ارضِ عجم
یہ لکھ لُٹ
جن کے جسموں کے
بھرپور جوانی کا کندن
یوں خاک میں ریزہ ریزہ ہے
یوں کوچہ کوچہ بکھرا ہے
اے ارضِ عجم، اے ارضِ عجم
کیوں نوچ کے ہنس ہنس پھینک دئے
ان آنکھوں نے اپنے نیلم
ان ہونٹوں نے اپنے مرجاں
ان ہاتوں کی ’’بے کل چاندی
کس کام آئی، کس ہاتھ لگی؟’’
’’اے پوچھنے والے پردیسی!
یہ طفل و جواں
اُس نور کے نورس موتی ہیں
اُس آگ کی کچی کلیاں ہیں
جس میٹھے فور اور کڑوی آگ
سے ظلم کی اندھی رات میں پھوٹا
صبح بغاوت کا گلشن
اور صبح بغاوت کا گلشن
اور صبح ہوئی من من، تن تن،
ان جسموں کا چاندی سونا
ان چہروں کے نیلم، مرجاں،
جگ مگ جگ مگ، رَخشاں رَخشاں
جو دیکھنا چاہے پردیسی
پاس آئے دیکھے جی بھر کر
یہ زیست کی رانی کا جھومر
یہ امن کی دیوی کا کنگن!
فیض احمد فیض