چلو اب لوٹ آو تم۔۔
چلو اب لوٹ آو تم
ہاں اب لوٹ آو تم
سنو تم نے کہا تھا نا
مجھے جذبہ محبت سے کبھی جو تم پکارو گے
میں اس دن لوٹ آؤں گی
تو دیکھو نا کئی لمحوں
کئی سالوں کئی صدیوں
سے تیرا رستہ تکتی یہ میری منتظر آنکھیں
میرے دل کی یہ دھڑکن اور بے ربط سی سانسیں
بس تمہارا نام لیتی ہیں
وہی اک ورد کرتی ہیں
میری آنکھوں کے ساحل پر
تیری خواہش کی موجوں نے
اٹکیلیاں کرتے
گھروندے، ریت کے
اور خواب مانند سنگ بسائے تھے
تیری تصویر،سوکھے پھول اور تحفے
تیری چاہت کی خوشبو میں
ہر لمحے کو جیتے ہیں
ابھی تک سانس لیتے ہیں
وہ سب رستے کہ جن پر تم میرے ساتھ چلتی تھی
وہ سب رستے جہاں تیری ہنسی کے پھول کھلتے تھے
جہاں پیڑوں کی شاخوں پر ہم اپنا نام لکھتے تھے
اُداسی سے بھرے منظر تمہارے
لوٹ کر آنے کی اُمیدیں لاتے ہیں
جو ہو شب تو امیدوں تارے جھلملاتے ہیں
سنو کچھ بھی نہیں بدلا
تمہاری انکھ کی شوخی
مسکراتے ہونٹ ساحر سے
تُمہاری آمد کی چھاپ سننے کو
میرے دل کی وہ سسکیاں چیخوں سی
میں نے روک رکھی ہیں
کہ وہ جس کی امانت ہیں
اسی کو سونپنا ہو گی
کہ ہر اک چیز ہر اک یاد ہر اک بات تمہاری
اسی پل میں رکی سی ہے ۔
سنو..
تکمیل پاتی چاہتوں کو یوں ادھورا چھوڑا نہیں کرتے
مجھے مت آزماؤ تم
چلو اَب لوٹ آؤ تم..
کہ تم بن میں ادھورا ہوں
کہ تم بن میں ادھورا ہوں
نوید اسلم