ہجر کی اداس شام – نوشی گیلانی
- نوشی گیلانی
نوشی گیلانی
- 23/01/2023
- 516
وصال رت کی یہ پہلی دستک ہی سرزنش ہے
کہ ہجر موسم نے رستے رستے سفر کا آغاز کر دیا ہے
تمہارے ہاتھوں کا لمس جب بھی مری وفا کی ہتھیلیوں پر حنا بنے گا
تو سوچ لوں گی
رفاقتوں کا سنہرا سورج غروب کے امتحان میں ہے
ہمارے باغوں سے گر کبھی تتلیوں کی خوشبو گزر نہ پائے تو یہ نہ کہنا
کہ تتلیوں نے گلاب رستے بدل لیے ہیں
اگر کوئی شام یوں بھی آئے کہ جس میں ہم تم لگیں پرائے
تو جان لینا
کہ شام بے بس تھی شب کی تاریکیوں کے ہاتھوں
تمہاری خواہش کی مٹھیاں بے دھیانیوں میں کبھی کھلیں تو یقین کرنا
کہ میری چاہت کے جگنوؤں نے
تمہارے ہاتھوں کے لمس تازہ کی خواہشوں میں
بڑے گھنیرے اندھیرے کاٹے
مگر یہ خدشے، یہ وسوسے تو تکلفاً ہیں
جو بے ارادہ سفر پہ نکلیں
تو یہ تو ہوتا ہے یہ تو ہوگا
ہم اپنے جذبوں کو منجمد رائیگانیوں کے سپرد کر کے
یہ سوچ لیں گے
کہ ہجر موسم تو وصل کی پہلی شام سے ہی
سفر کا آغاز کر چکا تھا