آرائش خیال بھی ہو دل کشا بھی ہو – ناصر کاظمی
- شعر کدہ ناصر کاظمی
Naveed
- 20/11/2022
- 502
آرائش خیال بھی ہو دل کشا بھی ہو
وہ درد اب کہاں جسے جی چاہتا بھی ہو
یہ کیا کہ روز ایک سا غم ایک سی امید
اس رنج بے خمار کی اب انتہا بھی ہو
یہ کیا کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر
جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو
ٹوٹے کبھی تو خواب شب و روز کا طلسم
اتنے ہجوم میں کوئی چہرہ نیا بھی ہو
دیوانگئ شوق کو یہ دھن ہے ان دنوں
گھر بھی ہو اور بے در و دیوار سا بھی ہو
جز دل کوئی مکان نہیں دہر میں جہاں
رہزن کا خوف بھی نہ رہے در کھلا بھی ہو
ہر ذرہ ایک محمل عبرت ہے دشت کا
لیکن کسے دکھاؤں کوئی دیکھتا بھی ہو
ہر شے پکارتی ہے پس پردۂ سکوت
لیکن کسے سناؤں کوئی ہم نوا بھی ہو
فرصت میں سن شگفتگئ غنچہ کی صدا
یہ وہ سخن نہیں جو کسی نے کہا بھی ہو
بیٹھا ہے ایک شخص مرے پاس دیر سے
کوئی بھلا سا ہو تو ہمیں دیکھتا بھی ہو
بزم سخن بھی ہو سخن گرم کے لیے
طاؤس بولتا ہو تو جنگل ہرا بھی ہو
مزیدپڑھیں