اداسی کو صِلہ
میری برسوں کی اداسی کو صِلہ کُچھ تو ملے
اُس سے کہہ دو وہ میرا قرض چُکانے آئے
وہ میرے کانپتے ہونٹوں کی صدائیں سُن لے
یا میرے ضبط کو اِظہار کا لہجہ دیدے
یا مُجھے توڑ دے اِک گہری نظر سے چُھو کر
یا مُجھے چُوم کے تخلیق کو سانچہ دیدے
میری تخلیق اُٹھا جائے خُدا کی ماننّد
اور مِٹ جاوؑں تو پِھر مُجھ کو بنانے آئے
خواب پلکوں کی ہتھیلی پہ چُنے رہتے ہیں
کون جانے وہ میرے خواب چُرانے آئے
خلیل الرحمٰن قمر