فکر دلداریِ گلزار کروں یا نہ کروں ذکرِ مرغانِ گرفتار کروں یا نہ کروں قصۂ سازشِ اغیار کہوں یا نہ کہوں شکوۂ یارِ طرحدار کروں یا نہ کروں جانے کیا وضع ہے اب رسمِ وفا کی اے دل وضعِ دیرینہ پہ اصرار کروں یا نہ کروں جانے کس رنگ میں تفسیر کریں اہلِ ہوس مدحِ […]Read More
Tags :اردو شاعری
فیض احمد فیض کی شاعری حسینۂ خیال سے – فیض احمد فیض 0 360 چند روز اور مری جان فقط چند ہی روز – فیض احمد فیض 0 514 بہت سیاہ ہے یہ رات لیکن – فیض احمد فیض 5 375 ایرانی طلبا کے نام 0 204 نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن – […]Read More
سلام لکھتا ہے شاعر تمہارے حسن کے نام بکھر گیا جو کبھی رنگِ پیرہن سرِ بام نکھر گئی ہے کبھی صبح، دوپہر ، کبھی شام کہیں جو قامتِ زیبا پہ سج گئی ہے قبا چمن میں سرو و صنوبر سنور گئے ہیں تمام بنی بساطِ غزل جب ڈبو لیے دل نے تمہارے سایۂ رخسار و […]Read More
روش روش ہے وہی انتظار کا موسم نہیں ہے کوئی بھی موسم، بہار کا موسم گراں ہے دل پہ غمِ روزگار کا موسم ہے آزمائشِ حسنِ نگار کا موسم خوشا نظارۂ رخسارِ یار کی ساعت خوشا قرارِ دلِ بے قرار کا موسم حدیثِ بادہ و ساقی نہیں تو کس مصرف حرامِ ابرِ سرِ کوہسار کا […]Read More
ہم پرورشِ لوح قلم کرتے رہیں گے جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے اسبابِ غمِ عشق بہم کرتے رہیں گے ویرانیِ دوراں پہ کرم کرتے رہیں گے ہاں تلخیِ ایام ابھی اور بڑھے گی ہاں اہلِ ستم، مشقِ ستم کرتے رہیں گے منظور یہ تلخی، یہ ستم ہم کو گوارا دم ہے […]Read More
سالہا سال یہ بے آسرا جکڑے ہوئے ہاتھ رات کے سخت و سیہ سینے میں پیوست رہے جس طرح تنکا سمندر سے ہو سر گرمِ ستیز جس طرح تیتری کہسار پہ یلغار کرے اور اب رات کے سنگین و سیہ سینے میں اتنے گھاؤ ہیں کہ جس سمت نظر جاتی ہے جا بجا نور نے […]Read More
میں کل تنہا تھا خلقت سو رہی تھی مجھے خود سے بھی وحشت ہو رہی تھی اسے جکڑا ہوا تھا زندگی نے سرہانے موت بیٹھی رو رہی تھی کھلا مجھ پر کہ میری خوش نصیبی مرے رستے میں کانٹے بو رہی تھی مجھے بھی نارسائی کا ثمر دے مجھے تیری تمنا جو رہی تھی مرا […]Read More
لبوں پہ حرف رجز ہے زرہ اتار کے بھی میں جشن فتح مناتا ہوں جنگ ہار کے بھی اسے لبھا نہ سکا میرے بعد کا موسم بہت اداس لگا خال و خد سنوار کے بھی اب ایک پل کا تغافل بھی سہہ نہیں سکتے ہم اہل دل کبھی عادی تھے انتظار کے بھی وہ لمحہ […]Read More
ذکر شب فراق سے وحشت اسے بھی تھی میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی مجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا رستہ بدل کے چلنے کی عادت اسے بھی تھی اس رات دیر تک وہ رہا محو گفتگو مصروف میں بھی کم تھا فراغت اسے بھی تھی مجھ سے بچھڑ […]Read More
خود اپنے دل میں خراشیں اتارنا ہوں گی ابھی تو جاگ کے راتیں گزارنا ہوں گی ترے لیے مجھے ہنس ہنس کے بولنا ہوگا مرے لیے تجھے زلفیں سنوارنا ہوں گی تری صدا سے تجھی کو تراشنا ہوگا ہوا کی چاپ سے شکلیں ابھارنا ہوں گی ابھی تو تیری طبیعت کو جیتنے کے لیے دل […]Read More
غزلوں کی دھنک اوڑھ مرے شعلہ بدن تو ہے میرا سخن تو مرا موضوع سخن تو کلیوں کی طرح پھوٹ سر شاخ تمنا خوشبو کی طرح پھیل چمن تا بہ چمن تو نازل ہو کبھی ذہن پہ آیات کی صورت آیات میں ڈھل جا کبھی جبریل دہن تو اب کیوں نہ سجاؤں میں تجھے دیدہ […]Read More
بہت روشن ہے شام غم ہماری کسی کی یاد ہے ہم دم ہماری غلط ہے لا تعلق ہیں چمن سے تمہارے پھول اور شبنم ہماری یہ پلکوں پر نئے آنسو نہیں ہیں ازل سے آنکھ ہے پر نم ہماری ہر اک لب پر تبسم دیکھنے کی تمنا کب ہوئی ہے کم ہماری کہی ہے ہم […]Read More