ارشد شریف
ارشد شریف کون تھا یہ شخص کہاں سے آیا تھا ،کیوں نیند خراب کر رہا ہے قوم سو رہی ہے سونے دے آخر چاہتا کیا ہے ،مر گیا تو کیا سب ہی مرتے ہیں جلد یا بدیر سب نے مرنا ہی ہے شور کس بات کا،
اچھا مرا کیسے
دیار غیر میں بے سروس سامانی اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارشد شریف کیسے قتل ہوئے؟
انکی موت ایک غلط شناخت کا کیس قرار دی گئی، لیکن میرا تخیل اس بارے کچھ اور کہتا ہے۔
فلسفہ عالم اسباب
اہل علم کا کہنا ہیکہ اللہ تعالی نے نے بیس ہزار عالم تخلیق فرمائی ہیں ، ان بیس ہزارعالموں میں ہم عالم اسباب میں موجود ہیں ۔۔۔
عالم اسباب کا فلسفہ اسطرح آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔
عالم اسباب اور رسول اللہ ﷺ
اللہ کے محبوب تریں نبی محمدؐ کو بھی پیٹ پر پتھر باندھ کر خندق کھود نا پڑی ، زندگی سخت حالات میں گزری،جنگیں لڑیں ، زخم اٹھائے۔ ایک طرف فرشتے ظئف ولوں کو فنا کرنھے آگئے، ہ ھکم دیں اور تعمیل ہو لیکن اھد میں مومنین کی غلطی کی وجہ سے ہونے والےنقسان کو وکنے نہیں آئے، آپ کا دانت شہید ہوا، زخم لگے، صرف ہمیں یہ بتانے کے لئے کہ اس عالم میں ہوتا نہیں ہے ۔۔
کرنا پڑتا ہے۔
حضرت عیسٰی اور عالم اسباب
حضرت عیشی علیہ السلام کا واقعہ جب وہ واپس زمین پر اتارے جائیں گے، تو مینار سے اترنے کے لئے سیڑھی طلب فرمائیں گے ۔ جو نمازی جمع ہوں گے وہ کہیں گے کہ اے ابن مریم آسمان سےاتر آئےہیں نیچے بھی تشریف لے آئیں ۔
تب حضرت عیسیٰ فرمائیں کہ یہ عالم اسباب ہے یہاں مینار سے اترنے کے لیے سیڑھی درکار ہے ۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالی کی ایک صفت عادل ہے ۔اس لیے اس عالم اسباب میں گندم وہی کسان اچھی اگائے گا جو بروقت ہل چلا کر بیج بوئے گا نمازوں میں مگن رہنے والا بھوکا رہے گا ۔
لیکن شائد ہم لوگ ہی حتمی انصاف کرنا بھول گئے ہیں۔
شائد اسی لیے زیادہ تر اعمال ہماری زندگی میں ہی سامنے آجاتے ہیں ، بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے کسی بھی جنازے کے آخر میں چلتے لوگ جو باتیں کر رہے ہوں وہ اس شخص کی اصل ہوتی ہے اور ویسا ہی بدل ۔
میں نے ارشد شریف کو کبھی اس کی موت سے پہلے زیادہ نہیں سنا ، وہ کون ہے سے شہرت پائی اور ایک جذباتی سے آدمی لگے ۔
اپنی زندگی میں دو دفعہ ایسا ہوتا دیکھا ۔۔۔
پہلی دفعہ جب بینظر بھٹو شہید ہوئی تو کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو نم نہ ہوئی ہو۔ ان کے مخالف ترین لوگ بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے یہ ظلم ہوا۔
ارشد شریف کی موت پر باوجود اس کے کہ سرکاری اور پیڈ میڈیا نے رائے عامہ تقسیم کرنے کی کوشش کی لیکن اکثریت اور ،وہ بھی ،کہ جنہوں نے کبھی انہیں سنا نہ ہو گا ،غم محسوس کیے بغیر نہ رہ سکے،ریاست مدینہ کا انتظار کرتے ایک اور انقلابی جان سے گیا ۔
پرانے وقتوں میں ظلم پر سرخ آندھی چلتی تھی ،اب ہر نگر ہر گلی اتنا ظلم کہ آندھیاں بھی روٹھ گئی ۔
لیکن کیوں یہ دکھ کی لہر اک پڑھے لکھے سے ریڑھی بان تک یکساں اثر پذیر ہویی۔
پاکستان مین 2012 سے 2022 تک 53 صحافی جان سے گئے
ارشد شریف کی موت
اس کی وجہ مجھے اس دن سمجھ آئی جس دن انکے پوسٹمارٹم کی تصاویر منظر عام پر آئیں ۔ شاید ڈرا ہوا تھا جس دن وطن سے بے وطن ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھاگا نگر نگر ۔۔۔۔۔۔۔۔
شکاری بھگاتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس طرح ہرن کو گھیر کر مطلوبہ جگہ لے جایا جاتا ہے
تربیت یافتہ لوگ تھے ۔۔۔
مکمل پروفیشنل
مشکیں تو لازمی کسی گئی ہوں گی،
تاکہ آیندہ کے معاملات میں آسانی ہو ۔۔۔۔۔۔
ناخن اکھاڑنا عام آدمی کے بس کا نہیں
ہلنے بھی نہ پایا ہو گا۔۔۔
کوئی نفرت مخا لفت میں ایسا کولڈ بلڈڈ تشدد نہیں کرتا ،
مکمل منصوبہ بندی سے شائد کچھ پوچھنا ہو گا یا کوئی معلومات
وہ لازمی بات ہے آمادہ نہ ہو گا
ایک ایک کر کے ہڈیاں توڑی گئی بہت سخت جان لونڈا ہے۔۔۔
ناخن در ناخن
تڑک تڑک
ٹیم پر لازمی جھنجلاہٹ طاری ہوئی ہو گی ۔۔۔۔۔
سنسان جنگل دوردور تک کوئی آواز تک سننے والا نہیں
میرا تخیل اس سے اگے نہیں جا پایا۔۔۔۔۔
لیکن یہ عالم اسباب ہے اور اللہ سب سے بڑا عادل ہے ،جو موت اسے ملی بڑے بڑے جگر والے منہ موڑ دیں۔۔
لیکن موت کے بعد جو ؑعزت و عظمت اسے ملی ایسی شاندار بڑی بڑی پگڑیوں والوں کو نصیب نہیں ہوتی ۔۔۔۔
وہ شہید تھا ،جا ن بحق تھا ، یا ہلاک تھا، اس کا فیصلہ قدرت دے چکی ہے اپنے دل کے اندر قدرت کی آواز سن لیں۔ جو بھی کر لیں آپ اسکی یہ عظمت نہیں چھین سکتے ۔میرا دل کیتا ہے کی ان تین گھنٹوں کی کہانی لازماٗ باہر آئے گی قدرت عدل کرتی یے ۔
وہ لازمی طور پر چیخا ہو گا دیار غیر میں جنگل ویرانی آخر میں اس نے رب کو ہی آواز دی ہو گی۔ ڈوبتی آنکھوں سے اسمان کو دیکھا ہو گا ۔
اور اللہ نے شائد آخری پکار سنی اور جواب بھی دیا،
مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو اور عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمہارے لئے مضر ہو۔ اور ان باتوں کو خدا ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے-
سورة البقرة ﴿۲۱۶﴾
اللہ نے وہ عطا کیا جو ابدیت ہے ۔۔۔۔
اگلے دن پوری دنیا پیں ایک ہی آواز تھی ایک ہی نام تھا،
ارشد شریف
ہم نے تم نے سب نے مر جانا ہے لیکن کسی نہ کسی کتاب کے ورق پر ارشد شریف زندہ رہے گا۔ یہ ناموری ہر کسی کا مقدر نہیں۔۔۔
ارشد شریف کی فیملی
ارشد شریف کی بیوی کا نام جوئیریہ صدیق ہے جو خود بھی صحافی ہیں اور کراچی سے تعلق رکھتی ہیں۔
مرحوم کے 4 بیٹے اور 1 بیٹی اتصاف کے منتظر ہیں۔
ارشد شریف کا اعزاز
ارشد شریف کو 2019 میں 23 مارچ پر تمغہ حسن کارکردگی دیا گیا تھا جو ایک صحافی کے لیے اعزاز کی بات ہے۔
ارشد شریف کا وکیل
ارشد شریف مرحوم کی فیملی کے پاس آج کوئی وکیل نہیں ہے۔
پورے پاکستان میں ایک بھی وکیل ایسا نہیں جو ارشد شریف کا کیس لڑ سکےاور اسے انصاف دلا سکے۔
حق دوستی ادا کرتے صرف مراد سعید اکیلا اس کے کیس کی پیروی کر رہا ہے۔
پاکستان میں جنگل کا قانون نافذ ہے۔اور جنگل میں حقوق نہیں ہوتے۔
عمران کا پہلا اور آخری ٹیسٹ
انسان مل جل کر رہتے ہیں ، ہر معاملہ میں اختلاف رائے بنتا ہے اور معاملات نئی سمت چلتے ہیں ، تنقید کے ساتھ ہی تعمیر ممکن ہے۔ سرگوشیاں سنائی دے رہی ہیں کہ عمران خان سے ڈیل میں پہلی شرط ارشد کے قاتلوں کی کھوج نہ لگانا ہے۔
یہی اصل ٹیسٹ ہے۔
جو بھول جاتے ہیں وہ بھولا دئے جاتے ہیں، وہ بھلا دیے جاتے ہیں۔