بغاوت
- تاریخ کا سق فروٹ
نوید اسلم
- 01/10/2023
- 243
خبر نظر سے گزری کہ حکومت نے نو مئی کے ملزمان کے خلاف بغاوت کا جرم شامل مقدمہ کر دیا ہے۔ اب سزا ہو کے رہے گی۔
بغاوت کا لفظ پڑھتے ہی میرے ذہن میں ماضی کے واقعات گھوم گئے۔
غدر 1857
1857 کا غدر برپا ہوا تو یوں لگا کہ کوئی انگریز بچ نہ پائے گا۔، لیکن جیسے ہی کمپنی کے قدم جمے قتل و جبر کا وہ دور ہوا کہ 4 ہزار برطانویوں کے بدل 12 لاکھ ہندوستانی قتل ہوئے۔
مر جانے والوں کے لاشوں کو درختوں سے لٹکا دیا گیا اور ایک سال تک لاشوں کو اتارنے کی اجازت نہ دی گئی۔ دہلی شہر میں پچاس سے ستر ہزار علما قتل ہوئے۔ تعداد پر اتفاق نہ ہے کیونکہ ملک پر کمپنی کا قبضہ تھا۔اور مرنے والے باغی اور باغیوں کی لاشوں کے قریب پھٹکنے والا بھی باغی ۔۔۔
لٹکتی لاشیں نظام کا پیغام تھا ۔۔
جلیانوالہ باغ
دوسرا واقعہ جلیانوالہ باغ کے نام سے پہچانا جاتا ہے، جنرل ڈائر نے شہر میں مارشل لاء لگایا دیا تھا اور چار سے زائد افراد کے اکٹھے ہونے پر پابندی تھی شام کے بعد کسی کو سڑک پر دیکھے جانے کی صورت میں گولی مارنے کا حکم دے دیا گیا تھا کسی بھی شخص کو شہر چھوڑنے کی اجازت نہ تھی بدقسمتی سے گولڈن ٹیمپل کے ساتھ ملحقہ باغ میں بیساکھی کا تہوار منانے آنے والے لوگ اس حکم کی خلاف ورزی کر بیٹھے۔
جنرل ڈار کا جبر
جنرل ڈائر کو اس خلاف ورزی کا علم ہوا۔ تو اس نے کاروائی کا فیصلہ کیا۔ سول انتظامیہ سے میٹنگ اور ہوائی جہاز کے ذریعے لوگوں کی تعداد اور نوعیت جاننے کے بعد ڈائر نے 50 فوجی منتخب کیے اور جلیانوالہ باغ پہچ کر فائرنگ کا حکم دیا یہ شروع میں کچھ فوجیوں نے ہچکچاہٹ دکھائی اور گولیاں ہوا میں چلائی جس پر ڈائر نے چیخ کر ہجوم والے حصوں پر گولی چلانے اور اپنی نوکری سیدھی کرنے کا حکم دیا۔
1650 گولیاں چلی اور جس تیزی سے ڈائر آیا تھا اسی تیزی سے واپس چلا گیا۔
زخمیوں اور لاشوں کو اٹھانے کی اجازت نہ تھی ، شہر کی پانی اور بجلی منقطع تھی۔ لوگ زخمی حالت میں گرتے پڑتے نکلنے کی کوشش کرتے رہے مرنے والوں میں چھ ماہ کے بچے سے لیکر بوڑھے بزرگوں تک شامل تھے۔
چیلوں اور کووں نے شہر میں بسرا کر لیا،۔ بی بی سی کی ایک رپوٹ کے مطابق ہنٹر کمیشن جب تین ماہ بعد انکوائری کے لیے پہنچا تو شہر میں لاشوں کی سرانڈ موجود تھی ۔ کئی لاشیں شہر میں میلہ دیکھنے آئے دیہاتیوں کی تھی جنکو لیجانے والا کوئی نہ تھا۔
مرنے والوں کی تعدادا آج تک درست طور معلوم نہ یو سکی ، کیونکہ شہر پر ڈائر کا قبضہ تھا اور باغ میں موجودگی کا مطلب بغاوت۔
ڈائر کا کہنا تھا اسکا ٹکراو باغیوں سے ہوا تھا اور بغاوت کچلنے کے لیے ضروری کاروائی کی گئی۔
باغ میں سڑتی ہوئی لاشیں نظام کا یغام تھا۔
سانحہ نو مئی
سانحہ 9 مئی ملکی تاریخ نہ بھلایا جا سکنے والا سانحہ ہے،اس دن کو غدر ثانی کہیں یا جلیانوالہ دوئم یہ ان دونوں سے بڑھ کر ہے کیونکہ اس دفعہ انگریز نہیں تھے اس دفعہ دونوں طرف ہم ہی تھے ، اس دن کتنے لوگ مرے آج تک کسی کو معلوم نہیں، نظام نے خطرہ محسوس کرتے ، جناح ہاوس کو حضرت جناح ہاوس قرار دے دیا۔
ہر قانون کی کتاب کھنگال لی لیکن شکنجہ بن کہ نہیں آرہا کہ اپنے گھر والوں سے ایسا کون کرتا ہے۔
ہر ضمانت کے بعد اتھائے جاتے بچے اور ماواں دھیاں سانج کہنے والے معاشرہ کی بیٹیاں، گھسیٹ کر اٹھائے جانے والے ذلت اٹھاتے بزرگ، نظام کا پیغام ہیں۔
نظام کو پیغام
غدر کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی جیسکا راج عالمی تجارت تھا، پر نہ رہی، جیانوالہ نے 1947 کو لازم کردیا، سب کچھ گیر معمولی ہو رہا ہے، زمین سے کان لگا کر گھاس کی سرسراہٹ سنیں، نظام نے خود بے کار بے مقصد نسل کو مشن دے دیا ہے۔
ریاست کے نام میرا پیغام
یہ ہمارے ہی گلی کوچوں میں پلے بڑھے بچے ہیں۔، نظام نے پہلے انکو ففتھ جنریشن وارئیر کہا، پھر یوتھیا کہا، دہشتگرد سے بھی نظام کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا اور باغی قرار دے دیا۔
اگر ریاست کہیں ہو تو اک بار ضرور سوچے ، مشرقی پاکستان الگ ہوا۔۔۔
ے پی کے ایک ہی وقت میں دہشتگرد اور دہشت زدہ دونوں ہے۔
بلوچستان تو خبروں میں بھی نہیں آ تا۔
یہ دس ہزار پاکستانی ہیں یہ سب کچھ ہو سکتے ہیں لیکن باغی نہیں ہو سکتے۔
ایک مرتبہ ان دس ہزار باغیوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر پوچھ ہی لیں ناراض کیوں ہیں۔
شائد بات بن جائے ۔
یہ ملک، یہ پاکستان میرے جیسوں کے لیے گھر ہے ، جنت ہے یہ میری۔۔۔
اور میری جنت پر اداسیوں کے ڈیرے ہیں۔
اور ایک بات یاد رکھنے کی ہے
گھر سے اگے جانا کدھر کو ہے۔
گھر سے اگے کوئی گھر نہیں ہوتا
گھر سے اگے کوئی گھر نہیں ہوتا