چیف جسٹس صاحب ، گھرانا نہیں۔۔۔پم کھڑے ہیں
عمرعطابندیال قاضی القضا
کوئی بھی معاشرہ ہو، ملک ہو عدل کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔
عدل کا نظام ہی کسی معاشرہ کی بقا کی ضمانت ہے،اور پورا کا پورا عدل کا نظام قاضی القضا کی ذمہ داری ہے۔
سب سے بڑی اور طاقتور سیٹ قاضی القضا کی ہوتی ہے۔
تمام سر قاضی القضا کے سامنے جھکتے ہیں لیکن یہ صرف اللہ کو جواب دہ ہے۔
اللہ کی سنت پر کہ خالق منتظر بندہ توبہ کرے، کوئی چھوٹی سی ادا پسندآئے بندہ بخشیا جاوے۔
دنیا والے کے پاس اختیار کہ چھوٹے سے چھوٹا بہانہ بنا کر موت کو خالی ہاتھ لوٹاوے۔
لیکن قاضی القضا کی ایک کمزوری ہوتی ہے۔
بشر ہوتا ہے، انسان ہوتا ہے، آدم کی اولاد ہے۔
غلطی کر سکتاہے،بہک سکتا ہے سوچ و نظر کی حد متین ہے۔
اتنے بڑے عہدہ کی حفاظت کون کرے ۔
حضرت عمر فارمولا
حضرت عمر نے سوال کیا۔۔
اگر خلیفہ وقت بہک جائے، غلط راہ پر چل پڑے کیا کرو گے۔
جوب آیا، گردن اڑا دیں گے۔
سختی سے پوچھا تم امیرالمومنین کے سامنے یہ بات کر رہے ہو۔
جواب آیا یہ اپ نے ہی سکھایا ہے ۔
فرمایا: ہاں اب میں مطمئین ہوں اسلام درست ہاتھوں میں سونپ رہا ہوں۔
یہ ہے وہ رویہ جس سے عوام اپنے لیڈر اور کسی بھی سرکردہ فرد کو غلطی کرنے سے بہک جانے سے روک سکتے ہیں ۔
وطن عزیز کی بدقسمتی یہ بھی ہیکہ یہاں ہمیں سچ اور جھوٹ کا کوئی مستقل پیمانہ دستیاب نہیں۔
قرآن کو اللہ نے مقدس کیا آئین کو ہم نے
ذاتی پسند نہ پسندکی خاطر دونوں چھپا دیے نافذ نہ کرنے پڑیں
یہاں ہر طرف ہر کوئی اسقدر مصروف ہیکہ بڑے سے بڑا اور خوفناک سے خوفناک واقع اثر اندز نہیں ہوتا۔
سپریم کورٹ میں نئے جج رکھنے کو مکمل سیاسی عمل بنا دیا گیا گویا اپنے جج ہونے سے اپنے فیصلے ہوں گے۔
اسوقت حاضر قاضی القضا عمر عطا بندیال صاحب کے خلاف آئندہ آنے والے قاضی القضا نے ایک خط لکھا اور الزام لگایا الزام باقاعدہ پبلک کیا گیا۔
بندیال صاحب کی تضحیک کی گئی، مزاق اڑائے گئے جس کا دل کرتا جس چوک میں تقریر شروع کر دیتا۔
بندیال صاحب نے اس میٹنگ کی آڈیو سرکاری سائیٹ پر جاری فرما دی۔
ہمارے بڑے جج کو اپنی صفائی دینی پڑی۔
یہ اتنا بڑا واقعہ تھا کہ اگر کسی سنجیدہ ملک میں ہوتا طوفان آجاتا ۔
مطلب وہ سیٹ جو اس ملک کی سب سے طاقتور سیٹ ہے ،
جو کسی جواب دہ نہیں اس پر موجودہ اور آنے والے قاضی کی آپس میں ان بن باقاعدہ الزامات ۔
اب ان دونوں میں سے کوئی تو اک غلط اور جھوٹا تھا ۔
بے ضمیر تھا اپنے حلف کے خلاف اور عدل کی کرسی کی توئین تھا۔
کوئی بھی ایسے شخص سے جو دل چاہے فیصلےکروا لے گا۔
ہمارا رویہ کیا رہا کسی کو یاد تک نہیں ہو گا۔
عوام نے فیصلہ کرنا تھا ،عوام کو احساس تک ہوا نہ۔
مطلب پاکستان کا موجودہ یا آنیوالاقاضی القضا اپنے عہدہ کے قابل نہیں۔
ذاتی مفاد کے لئے ہر حد تک جا سکتے ہیں۔
اسی طرح قاضی القضا کا فیصلہ کاغذ پر لکھا جاتا ہے اس پر عمل کروانا پڑتا ہے
عوام ہی ان فیصلوں کی نگران ہو کر ان پر عمل یقینی بناتی ہے۔
عوام میں احساس نہ ہوتو خدا کی کرسی پر بیٹھا جج بھی بے بس ہوتا ہے۔
اسی طرح میں یہ خبر چھپی کوئی طوفان نہیں آیا مطلب ہمارا نظام عدل یرغمال ہے۔ غلط فیصلے کر سکتا ہے۔

غیر ملکی اخبارات میں آئی اس خبر پر کہ ججوں کی ویڈیو بنی ہے۔
تڑپے ہوتے،جج صاحب کو انسان مان کر معافی دی ہوتی،
حوصلہ دیا ہوتا کہ خدا کی کرسی پر حق کا فیصلہ کر دو۔
ہم کھڑے ہیں آپکے پیچھے گھبراو نہیں،
2 نسلیں ذہنی و اخلاقی عریانیت سے بچ جاتی۔
ڈھول بجھا چور چور چور
نواز شریف کو سزائے موت
نیا ڈھول توشہ توشہ خانہ
عمران خان سزائے موت
نواز شریف باعزت بری
تیسرا ڈ ھول۔۔۔۔۔۔
فیصلہ کریں
ہمارا رویہ ہے، محمد بن قاسم لیڈر چاہیے ، پھر اسکو اکیلا چھوڑ کے ذولفقار علی بھٹو کی طرح مرنے دیتے ہیں،پانی بھی نہیں پوچھتے۔۔
نواز شریف کو جتنی مرتبہ وزارت سے دھکیلا گیا ہم نے مٹھائی بانٹی،
جب بھی واپس آیا ہم نےپھر مٹھائی بانٹی۔
ہم نے لیڈر ماری کافی کر لی ہے اس مر تبہ لیڈر کے پیچھے کھڑا ہو کے،
جج کو حوصلہ دے کے دیکھ لیں،
مل کے کہتے ہیں چیف چسٹس عمر عظا بندیال صاحب
آپ انسان ہیں انسانی خطاوں کی معافی ۔۔
الللہ کی کرسی پہ بیٹھ کے فیصلہ حق والا کر دو
عین حق کر کے ہمارا رولہ مکا دو ۔۔۔
ہم کھؑڑے ہیں گھبرانا نہیں
شائد بات بن جائے۔