• 12/12/2023

خدائی فوجدار

       آزادی اظہار رائے بہت قیمتی چیز ہے لیکن ، بہت زیادہ خطرناک بھی ، جیسے ایک جدید اور طاقتور بندوق نادان کے ہاتھ میں جس سے اپنے فوجی مارتا جائے ۔۔۔۔۔

 ادھورے اور نامکمل علم سے ساتھااسلام کا دفاع کرنے والے خدائی فوجدار جنکو احساس تک نہیں ہوتا کہ سوشل میڈیا پر انکی ہر بات پوری دنیا دیکھ رہی ہے ۔۔۔۔

    دلیل کےبغیر اور حقائق کےمنافی اور بغیر مطالعه کیے کچھ لوگ دین کے نام پر اپنی لا علمی میں ان باتوں اور نظریات کو پوری شدت اے جھٹلا رہے ہوتے ہیں ، جن اہل علم شکر بجا لا کر کئی کئی کتابیں لکھ چکے ہیں ۔

  کم عقلی کا یہ عالم کہہ جب اُکی دلیل کو لفظی تمسخر کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،ان میں اتنی اہلیت بھی نہیں ،الفاظ کے لبادے میں چھپے اس قہقہے کو محسوس کر لیں جو اسلام کی عظمت و حقانیت کے ہمارے  دعوے پرلگ رہا ہے ۔۔۔۔۔

    کیوں ایک ایموجی جو قرآن کے ذکر پر لگایا جا رہا ہوتا ہے ، دل میں خنجر کی طرح گڑ نہیں جاتا ۔۔۔۔۔ 

کس نے آپکو یہ حق دیا ہے کہ خلاصتاً علمی موضوعات پر بغیر کسی وجہ کے مذہب پر بحث کھول دیں. 

کون ذمہ  دار ہے انُ لوگوں کی آخرت کا جو آپکے کمزور اوربے تکے نظریعہ کو اسلام کا نظریعہ جان کر اسلام سے مزید دور ہووے جاتے ہیں اور اپ کو باقاعدہ بتاتے بھی ہیں ۔۔۔۔۔

   بحث اور مکالمہ کسی بھی معاشرہ میں بہت ائم مقام رکھتے ہیں ، کسی موقف کو سب سے آسانی سے سمھنے کےلیے بحث بہترین طریقہ ہے ، وطن عزیز میں بھی کبھی محفلِ بحث ومباحثہ سجا کرتی تھیں ، علمی  مکالمہ جان تھی محفلوں کے ۔۔

    بحث جب کرنا مقصود ہوتی سب سے پہلے بحث کے آصول سیکھے جاتے ان ہر اتفاق ہوتا۔  فریقین کو ذاتی نظریہ ایک طرف رکھ کر ایک ہی لفظ یا سوچ کے کئی پہلو دیے جاتے ذور آزمائی ہوتی.

دو باتیں جو سب سے ضروری عنوان بالا کے لئے ، سیکھایا جاتا گفتگو کہاں روک، دینی ہے.

کہاں زبآں بے ادبی کی حد کو عبور کرنے کو آجاتی ہے.

فریقین لڑتے بھڑتے سیھکے جاتے اپنی اصل سوچ کو وسعت دیتے جاتے لیکن وہاں اک فرد ہوتا جو تمام معاملات کا نگران، سرکس کے رنگ کا اصل ہنٹر والا ۔۔۔۔

   استاد زیادہ علم رکھنے والا بھٹکنے سے بچانے والا ، علم کو درست ڈکر پر رکھنے والا ۔۔

   اس تمام پراسس میں سیکھا جاتا ، بات کرنا ، بات سننا، لفظ سے لفظ اور نقطہ سے شجر بنانا،اپنے موقف کو نئے سیکھے نظریہ سے اپڈیٹ کرنا ، سب سے اہم کہاں رک جانا ، کہاں لاعلمی قبول کرنا ہے ، اور کہاں عزت نفس کو برقرار رکھتےبحث روک دینا شکست قبول کرنا۔۔۔۔شکست

   شکست قبول کرنا ، هارنا ، کم علمی کو ترجیع دینا ، جہالت کی ضد پر ۔۔۔۔۔

زندگی کا بہت بڑا سبق ہے ، میدان میں کھڑے ہو کر اقرا کرنا کہ میری۔

 سوچ شائد نا پختہ اور غلط تھی ، نئے علوم نئی جہتیں قبول کرنا بزدلوں کا کام نہیں ، بہادروں کا شیوہ ہے ۔

  آج جہاں ہم جیتنا بھول گئے ہیں ، کم از کم جواں مردی سے ہارنا سیکھ لیں ، قبول کر لیں کم علمی کو ، رجوع کریں استادوں سے اور ہھر اسلام جیسے حساس موضوع کو علموں پر چھوڑ دیں ۔۔۔۔

کس بات کا خوف ہے ، اگر خوف ہے تو یہ فتوی کوئی عالم ہی دے سکتا ہے حالت ائمان کیا ہے ، پہلے دین کو دنیا کے سامنے کمزور عقیدہ سے رکھتے ہو پھر جب جواب نہیں بن پڑتا مزید خدائی فوجدار بن کے اپنے ہی فوجی مارتے ہو— کیوں خوف ۔۔۔آتا ہے ۔

   دنیا میں نفسیات پر خوف کے حوالہ سےجو تحقیقیں ہوئی ہیں ۔۔ان میں۔۔۔

“اپنے موقف اور نظریہ کے غلط ثابت ہونے کا خوف”

پہلے ۵ بڑے خوفوں میں آتا ہے ۔۔

  خدارا رکنا سیکھیے دین کا مزاق مت بنوائیں آللہ نے قران کی حفاظت کا ذمہ خود لیا ہے۔ 

 وہ اپنے کلام کو بر حق ثابت کروا لے گا.

   جو اس کے قابل ہوا ،جو اس کے اصولوں پرچلیں گے۔

  تمام شعبہ زندگی میں ایسے ہی نیم حکیم اور نیم ملا اپنے بند دماغوں کے ساتھ ننگی تلواریں لیے کھڑے ہیں۔ 

 ان کو کیسے سمجھانا ہے ۔۔۔ اس کا حل کیا کرنا ہے ۔۔۔۔۔

    اہل دانش جانتے ہیں.

Avatar of نوید اسلم

نوید اسلم

Related post