کل کے ڈاکو آج کے لیڈر
- تاریخ کا سق فروٹ
نوید اسلم
- 14/09/2023
- 444
تاریخی واقعات کو کس طرح ذہین سازی کے لہے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسکی مثال ہر تھوڑے عرصہ بعد وٹس ایپ پر وائرل ہونے والا ایک میسج ہے۔ جسکا عنوان عام طور پر
“کل کے غدار اج کے لیڈر“
جیسا ہوتا ہے۔ اور بدقسمتی یہ کہ لیڈر کون ہوتا ہے ہم یہ بھی نہیں جانتے۔
یہ میسیج عام طور پر ان دنوں میں تھوڑ بہت کمی یا اضافہ سے جاری ہوتا ہے جب کوئی گدی نشین الیکشن لڑ رہا ہو، کسی زمیندار سیاستدان کی شہرت کو کم کرنا مقصود ہو، ایک طویل میسج لیکن حیرت انگیز طور پر اسکا ماخذ نامعلوم ہوتا ہے۔
ایک ایسی قوم جو گٹر کے ڈھکن کا بھی سرخ فیتہ کاٹے ایسا ہونا عجیب ہے۔
پنجاب برصغیر پاک و ہند کا وہ خطہ رہا ہے جہاں برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد بند نہ ہوئی تھی، لیک نااتفاقی بھی اس خطہ کہ ایک مخصوص صفت ہے۔ کئی باغی اپنے ساتھیوں کی وجہ سے انگریزوں کے ہاتھوں مارے گئے۔
انگریزوں نے جس دور میں بر صغیر پر قبضہ کیا وہ سینکڑوں سالوں کی نااہلی اور جہالت کا نتیجہ تھا۔
یہ باغی ایک نہ ایک دن مارے ہی جاتے اور کوئی قابل ذکر تبدیلی بھی برپا نہ کر پاتے۔

زمینداروں اور وڈیروں کا اصل جرم یہ تھا کہ انگریز بر صغیر سے دولت لوٹ کر نہیں لے گئے تھے۔ زمیندار راجے اور وڈیرے عوام کے منہ سے نوالہ تک چھین کے جی حضوری میں سبقت لیجانے کے لیے صاحب بہادر کی خدمت میں پیش کرتے۔ اگریز کھبی حاکم تھے ہی نہیں ایک طبقہ نے اپنی چھوٹے فرعون کی کرسی کی خاطر بڑافرعون رکھا ہواتھا اور آج بھی ایسا ہی ہے۔
جنگ عظیم اول میں بھارتی خدمات
جنگ عظیم اول میں بھارت کی طرف سے 146. ملین پاونڈ نقد ، دس لاکھ فوجی اور 138608 مزدور بھجوائے گئے جو آزاد ریاستوں کے علاوہ تھے۔ 62000 جوان اس جنگ میں مارے گئے جبکہ 67000 زخمی ہوئے۔یورنیفارم خوراک کے ذخائر اس کے علاوہ تھے۔
جنگ عظیم دوئم میں بھارتی خدمات
دوسری جنگ عظیم میں 2.5 ملین بھارتی جنگ پر گئے۔ جن میں سے 87000 مارے گئے، 67000 قیدی بے، 34354 زخمی ہوئے۔ اس جنگ کی ہہت بڑی قیمت دی بھارتیوں نے، 30 لاکھ بنگالی بھوک اور قحط سے مارے گئے۔ بھارتی عورتوں سے کوئلہ کی کانوں میں غیر انسای حد تک کام لیا گیا۔ ان لاکھوں مزدورں کا کوئئ نام لیوا ھی نہیں جو سامراج کو سربلند کرتے مارے گئے۔
اور اگر بھارتی خون محافظ نہ ہوتا۔
اگر انگریزوں کے پاس بھارتی فوج نہ ہوتی تو وہ دونوں جنگوں سے نہیں گزر سکتے تھے۔
Field Marshal Sir Claude John Eyre Auchinleck
ان لوگوں کو بھیجنے کے لئے بھوک کے ساتھ سماجی اور معاشرتی عوامل کار فرما تھے۔اور ممکن بنانے والے مقامی وڈیرے چوہدری ملک نواب۔
یاد رکھنے کی بات
یہی نظر سے اوجل مگر موجود نظام اصل غلامی ہے۔ اپنے حقوق کی پہچان ضروری ہے، ورنہ جیالے بھٹو کے نام پر نعرے مارتے رہے، پٹواری میاں صاحب کے آنے اور جانے کی مٹھائیاں کھاتے رہے، اور یوتھیے عمران خان کے مقبرہ پر اسی نظام کا شکار رہیں گے۔
آزادی سوچ میں ہوتی ہے اور آزادی بھی۔