قرارداد پاکستان سے قرارداد خواجہ آصف تک
پاکستان کی قومی اسمبلی کے مقدس ایوان میں خواجہ آصف صاحب نے ایک قرار داد پیش کی جس میں افواج پاکستان اور دفاعی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کے خلاف مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے پر اصرا کیا گیا بلکہ بے قراری دکھائی گئی۔
ایک سیاسی پا رٹی کے چیرمین اور اس کے کارکنوں کے خلاف تمام شواہد موجود ہونے کا بھی ذکر کیا گیا۔یہ قرار داد اسی نشت میں پاس بھی کر لی گئی۔
خواجہ آصف صاحب ایک سینئر سیاست دان ہیں،ہو سکتا ہے نیت نیک ہو۔
لیکن اب تک حکومت ایڑی چوٹی کا زور لگا کر صرف ایک ہی مقصد کی تکمیل چاہتی ہے ،کہ کسی طرح ایمرجنسی کا نفاذ ہو جائے، تاکہ اصل احداف کی تکمیل کی جا سکے، اس بات کا اندازہ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بنیال سمیت تمام سرکردہ اور اہل دانش کو ہے اور اسکے نتائج بھی۔
اسی مقصد کے حصول کے لیے شہباز گل کی گرفتاری سے اب تک حکومتی ممبران، عمران خان کو فوج کے خلادف کھڑا کر کے غدار ڈیکلیرکروانا چاہتے ہیں۔
تب بھی اس بات پر شکوہ کناں تھے کہ اپنے ورکر کی ذمہ داری نہیں لیتا اسکو اون نہیں کرتا ، اکیلا چھوڑ دیا، تکبر بہت ہے۔
آج بھی اس قرار داد کے نقطہ نمر 2 میں یہی بات لکھی ہے۔
عمران خان نے اس دن پہلی مرتبہ ریڈ لائن یا ڈیڈ لائن سے قدم پیچھے رکھا تھا، اس بات کا اندازہ اس بات سے ؛گایا جا سکتا ہے، کہ دو لفظ ٹی وی سکرینوں سے غائب ہو گئے،
“آرٹیکل چھ اور سائفر”
عمران خان پر سوائے اس کام کے ، جس کی ذمہ داری اس پر تھی، ہر الزام لگ چکا ہے۔
وہ الزام بھی لگائے جا چکے ہیں، جنکا قانون پاکستان میں ابھی بننا باقی ہے۔
شائد تعزیرات پاکستان کا دامن تنگ پڑ گیا ہے، اسی لئے آرمی کی عدالتوں کی ضرورت پیش آگئی۔
ٹائمنگ بھی اہم ہے، 9 مئی کے ایک واقعہ کے لیے قرار داد 13 جون کو پیش ہوئی، شاید آرمی خواجہ صاھب کے سوچ سے ہٹ رہی ہو گی۔۔
ابھی تک شاید اس بات کا فیصلہ نہیں کیاگیا، کہ مقدمہ کونسا اور کہاں چلے گا۔ اور جرم کیا ہوگا۔
کھبی آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا ذکر ہوتا ہے اور کھبی جھوٹی اناوں کا۔
لیکن میرا ماننا ہیکہ یہ بحث فضول ہے ، جب کوئی قانون سرے سے ہی موجود نہیں تو پھر کونسا ایکٹ اور کونسی بغاوت۔
سسٹم نے ہر حال میں اپنا خوف قائم کرنا ہے کیونکہ خوف ہی اس نظام کی بقا کا ضامن ہے۔
جنرل مشرف کے خلاف آنے والے پھانسی کے فیصلہ پر نہ تو عمل ہو سکا اور نہ اسکی کوئی حیا ہی رکھی تاہم یہ غیر نافذ شدہ فیصلہ بہت کچھ نافذ کر گیا ہے۔
عمران خان کی بدقسمتی یہ ہیکہ اس کے مخالفت انتہائی گھٹیا طبقہ سے ہے، معیشیت، سائینس ،مینجمنٹ، بزنس، انڈسٹری کی بجائے صرف عورتوں کے قردار اچھال کر سیاست کرتے ہیں۔
مخالفت تو طاقت ہوتی ہے
جس شخص کا مخالف اچھا ،ہو وہ کمزور پڑ ہی نہیں سکتا
اور جسکا مخالف گھٹیا ہو وہ کھبی ترقی کر ہی نہیں سکتا
اگر انہوں نے کوئی جرم کیا ہے تو سز اعدالت سے ملتی،
خواجہ صاھب نے اک لمحہ کے لیے بھی یہ نہیں سوچا کہ جن لوگوں پر یہ ۔طنز کر رہے ہیکہ یہ تما م لوگ ریاست پاکستان کی ذمہ داری تھی ،
کیا انکو تعلیم دی؟
کیا انکو صحت کی سہولت دی؟
کیا انکو تربیت دی دنیا کو آج کی ٹیکنالوجی کے میدان میں مقابلہ کرنے کی؟
کیا انکو انصاف ملے گا ؟
دنیا کی تاریخ ہے “بغیر مواخذہ کے طاقت ہمیشہ تباہی لاتی ہے۔”
اور جو آج کے دہشت گرد ہیں، یہ کل تک یوتھیےتھے، اس سے قبل ففتھئے، اور ان دہشت گردوں نے سامنے کھڑے جنرل کو ایک تھپڑ بھی نہیں مارا۔۔۔
بحرحال خواجہ صاحب کو نامعلوم لوگوں سے معلوم باتیں کرنے کا فن آتا ہے۔
خواجہ صاحب مسلم لیگ نواز کی تاریخ بھول گئے ہیں، یہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے کندھے استعمال کر کے ایوان اقتدر میں آئی ہے۔
اور ہمیشہ اقتدار سے باہر بھی اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے گئی ہے۔
قرار دادا لاہور میں اختیاراپنے لوگوں کے لینےکے لیے پاکستان بنایا،
قرار داد 9 مئی میں اداروں کو یعنی عوام کے ملازموں کو حاکم بنا کر خود غلام بننا پسند کیا۔
جو ماضی سے سبق نہیں سیکھتے وہ آنے والوں کے لیے سبق بن جاتے ہیں۔ و