جونکیں
فرد یا ریاست کے لیے اس کے ایسٹس اور لائبیلیٹی اس کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں. کہ آیا کسی ریاست نے اپنے ایسٹس میں اضافہ کیا ہے. یا لائبیلیٹی میں اضافہ کیا ہے.کوئی بھی ایسا فرد ترقی نہیں کر سکتا. کوئی بھی ایسا فرد خوشحالی کی زندگی نہیں گزار سکتا. جو اپنی لائبیلیٹیز, اپنی ذمہ داریاں تو بڑھاتا ہے. لیکن ایسٹس میں اضافہ نہیں کرتا،اور ااگر زمہ داریوں کے ساتھ خون چوسنے والئ جونکیں بھئ ہوں تو۔۔۔۔۔
انسان بڑا بے صبرا واقعہ ہوا ہے انسان جب کسی بات کو کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ سالوں کا سفر منٹوں میں طے ہو، فوری وقوع پذیر ہوں تمام وہ واقعات جن کے بیچ ہم نے سالوں میں بوئے ہیں اور ایک لمحہ ہو کہ نتیجہ سامنے آ جائے ۔۔
جو بیج ہم ستر سال سے بوئے ہیں ان کی فصل کاٹے بغیر نئی فصل کیسےاگائی جا سکتی ہے.
کیا ہے
فرد کی حد تک لائبیلٹی۔۔۔۔۔۔۔۔
قسطوں پرمہنگا موبائل لے لینا، . یا بڑا گھر لے لینا. بڑاگھر دیکھنے میں تو لگ رہا ہے کہ ایسٹس ہے. لیکن اس گھر کا جتنا خرچہ ہو رہا ہے. اس گھر کو مینٹین کرنے کا خرچ اخراجات میں اضافہ ہے. وہ گھرلائیبیلٹی .ہو جاتا ہے
اسی طرح مہنگی گاڑی یا نئی گاڑی نکلوا لینی لیز پر،اب نئی گاڑی ایسٹس لگتی ہے لیکن در حقیقت اس کی مینٹینس اس کو چلانا اس کو رکھناوہ لائیبیلٹی میں تبدیل ہوتا چلا جاتا ہے اور میٹھے زہر کی طرح فرد کی معاشی حالت ک تباہ دیتا ہے ،
اب اسی اصول پر ملک کو دیکھتے ہیں ۔
ملکی سطح پرہم نے جو منصوبے پچھلے بیس تیس سال میں لگائے ہیں وہ یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ ہمارا کل کیسا ہو گا.
رینٹل پاور تمام کے تمام منصوبے ہمارے بیرونی تیل سے چلتے ہیں. اور آج حالت یہ ہے.کہ پاکستان میں اپنی ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود لیکن بجلی گھر ہونے کے باوجود ہم ان کو چلانے کی سکت بھی نہیں رکھتے لیکن ہم نے جو معاہدے ان سے کیے ہیں ان کے بدلے میں پیسے ہم نے پھر بھی دینے ہیں
ایل این جی پلانٹ، ایل این جی امپورٹ ہوتی ہے، ٹرمینل چارجز الگ ہیں. چلانے کی ہم میں سکت نہیں موجود. پیسے ہم نے دینے ہی دینے ہیں.
پاکستان کے اندر کار سازی کی صنعت نہیں ہے. جو ہیں وہ بھی سرمایہ باہر ڈرین کا ذریعہ ,اور کار سازی کی صنعت وہ میٹھا زہر ہے جو نظر بھی نہیں آ رہی او جونکوں کی طرح خون چوسی جا رہی ہے مثال کے طور پر آپ کسی سڑک پرکھڑے ہو کےگاڑیاں گنیں آپ کم از کم آج کے دور میں تیس سے چالیس فیصد گاڑیاں امپورٹڈ ملیں گی پہلے تو وہاں پr سرمایہ ڈرین ہوا , اس کے بعد ان گاڑیوں کے پارٹس اور ٹاٰئرجو ہر سال بدلنے ہیں ۔
پاکستان میں صرف ٹائر سازی کی ایک کمپنی ہےاس کا معیار،بھی ان ٹائرز کے مقابلے میں بہت کم ہے جو ہم باہر سےدرآمد کرتےہیں۔
ہمیں اس گاڑی کو چلانے کے لیے بھی پرزے باہر سےمنگوانےپڑتے ہیں
اسٹییل مل جو اپنے آپ میں ایک بہت بڑا ادارہ شاندار ادارہ آج تک اس کا ہم نے کیا حال کیا وہ کتنی بڑی لائیبیلٹی بن گئی
نئے نئے مکمل ہوے منصوبے اس لسٹ میں شاملُ کریں ساہیوال کول(غیر ملکی کوئلہ) ، قائداعظم سولر(مکمل ناکام)، میٹرو ٹریںس(سالانہ 25 ارب معہ جرمانہ 6 ارب) ، تو تکلیف اور بڑھ کاتی ہے اس نقصان کی ذمہ دار ہم بھی ہیں ہمارا ووٹ بھی شامل ہے ان جونکوں و خون پلانے میں ۔۔۔
آپ صفحے اٹھاتے جائیں دیکھتے جائیں کوئی ایک ادارہ ایسا ڈھونڈنے کی کوشش کرے جو ہمارے پاکستان کی لا ئیبیلٹی نہ ہو. سر شرم سے جھک جاتا ہے. کہ ہمارے منصوبہ ساز کیا سوچ کے یہ میٹھے زہر یہ جونکیں ہمارے سینے میں پیوست کرتے رہے جن کی قیمتیں ہماری نسلوں نے ادا کرنی ہے.
حالت ہماری یہ ہوگئی ہےکہ ہم زرعی ملک کہلاتے تو ہیں لیکن زرعی اجناس بھی باہر سے منگواتے ہیں آج ہر ہر شعبہ ہمارے لیے لائبیبیلٹی بن چکا ہے کوئی شعبہ ہمیں کما کے دینے کو تیار نہیں ہے
عیاشی کا یہ عالم کہُ لوکل بنی چیز کو بغیر دیکھے غیر معیاری کا فرمان ۔۔۔۔۔
تبدیلی راتوں رات نہیں آتی. جو بیج بوئیں وہ فصل کاٹنی پڑتی ہے. بروقت قدم نہ اٹھا کر جو ناسور منصوبہ سازوں نے اپنی ذات کی مفاد کو آگے رکھ کر اگائے ہیں. ان کو فیس کرنا پڑے گا۔
اور اگر انہوں نے ذاتی مفاد کو نہیں ترجیع دی تو اس سے بھی زیادہ شرمناک بات ہے ، نا اہلی کی کیا تاویل ۔
نسل کی تبدیلی کا وقت ہوا چاہتا ہے ، پچھلی نسل اپنی طبعی عمر پوری کر نےکوہے اب ہماری باری ہے ، پچھلی نسل صرف مزدور تیار کر کے گئی ہے وہ بھی بغیر کسی فنی مہارت کے ۔۔
دنیا کا کوئی ملک اتنے مزدور نہیں پال سکتا ۔۔
دنیا شفٹ ہو رہی ہے آرٹیفیشل انٹیلیجنس پر آج کے دور کا سچ انڈسٹری ہے ، پبلک کمپنیاں ہیں ، ٹیکنالوجی ہے ،
ڈگریاں بہت ہیں ، لیکن علم اور عمل نام کو نہیں ۔۔۔۔
سکل اپگیریڈیشن کے دور میں کوئی ایک عملی قدم نہ اٹھا سکے ۔۔۔۔۔
ریاستیں آیئنہ ہوتی ہیں افراد کے کردار اور معیار کا۔۔۔۔
سب مل کر اپنا حصہ ڈالتے ہیں تب ہی گھر چلتا ہے ۔
اب دیکھنا یہ ہے ہم کس قدر تیار ہیں
مزید پڑھیں