سالاراعظم
- فروٹ تاریخ کا سق
نوید اسلم
- 30/10/2022
- 1617
مغلوں کے بارے میں ایک غلط تاثر رہا ہیکہ مغل عیاش تھے اور انکی عیاشی کی وجہ سے سلطنت تباہ ہوئی، سلطنت تب ہی کھڑی رہتی ہے جب سب اپنے اپنے حصہ کا بوجھ اٹھا ئیں۔ میں اکثر سوچتا تا کہ کیسے سالاروں نے اتنی عظیم الشان سلطنت اپنے سامنے تباہ ہونے دی۔ آج وطن عزیز کی حالت دیکھ کر سمجھا ہوں، کہ دنیا شخصی ذہانت کے بدل نظام خواہ کمزور ہی ہو اسکو درست اہمیت دیتی ہے۔
ایک عظیم سلطنت کی کہانی جو فوجی سالاروں کی وجہ سے تباہ ہوئی
نظام کی اہمیت و ضرورت
انسان کو سماجی حیوان بھی کہا جاتا ہے. انسان ہمیشہ گروہوں کی صورت میں رہتے آئے ہیں ، اورانتظامات کو چلانے کے لیے ہر دور میں کوئی نہ کوئی نظام موجود رہا ہے۔
اگر نظام ریاستی ہو تو اولین ترجیح فرد کی بھلائی، اور اگر شہنشائیت ہو تو فرد واحد کی مرضی و منشا، لیکن تاریخ میں ایک چیز سیکھنے کو ملتی ہے کہ فرد واحد کی بقا بھی رعایا کی بھلائی سے جڑی ہے۔ شہنشاہ ہر شے،بحر و بر کی ملکیت کے باوجود رعایا کی فلاح کرتےہیں تو ہی نظام چلتا ہے۔ نظام میں ہمیشہ ادارے یا افراد کو مخصوص اختیارات اور زمہ داری دی جاتی ہے۔ اگر کوئی ایک ادارہ دیگر معاملات میں بھی مداخلت یا حصہ داری کرے تو نتیجہ تباہی کی شکل میں نکلتا ہے۔
سلطنت مغلیہ کا عروج
باشاہ صرف فیصلہ سازی کرتا ہے اسکی اصل طاقت اسکے وزرا درباری اور مشیر ہوتے ہیں اور ان فیصلوں پر عمل پزیری سالاروں اور خاص کر سالار اعظم کے بادشاہ کے ساتھ ہونے پر ہی ممکن ہے۔ مشیر اور سالار اچھے ہوں تو اکبر کے 9 رتن کہلاتے ہیں اور اگر نہ ہوں تو سراجالدولہ کی طرح بھرے دربار میں بادشاہ تنہا اور لاچار رہ جاتا ہے۔
ظہیرالدیں بابر نے 1526 عیسوی میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر سلطنت مغلیہ کی بنیاد رکھی, بابر کا تعلق کیونکہ وسطی ایشیا سے تھا، اس لیے اس نے اسی طور پر سلطنت کی داغ بیل ڈالی، لیکن اسکا بنایا انتظامی ماڈل ہمایوں کی شکست کے ساتھ ہی ڈھے گیا، شیر شاہ سوری نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں جو انقلابی کام کیے وہ بابر کی مغل سلطنت کی کمزوریوں کو دکھاتے ہیں،
عظیم الشان سلطنت مغلیہ جس نے اشوک کے بعد ہندوستان کو ایک تاج کے نیچے اکھٹا کیا اس کی بنیاد اکبر نے رکھی تھی، ایک اچھے منظم کی طرح زمینی حقائق کے مطابق ہر تبدیلیاں کرتا گیا، اور مذہب تک کا فرق مٹا کر متحد کرنے کی کوشش کی۔
مضلیہ سلطنت کا عروج اورنگزیب کے دور میں اپنی آخری حدوں کو چھو گیا اور وہیں سے زوال کا آغاز ہوا۔
اورنگزیب عالمگیر اور عروج سلطنت مغلیہ
اورنگزیب نے کم و بیش صف صدی تک حکومت کی، شنہشاہ بننے کےلیے اورنگزیب کو حسب روایت اپنے والد کے کمزور پڑتے ہی اپنے بھائیوں اور بھتیجوں سے مقابلہ کرنا پڑا۔ شاہجہاں نے اپنے چاروں بیٹوں کی خوب تربیت کی تھی۔ لیکن مقابلہ صرف شہزادوں میں ہی نہیں سالاروں اور درباری وزراء میں بھی تھا، کسی شہزادے کے ساتھ کتنے سالاراور تنے عمراء کھڑے ہوتے ہیں، یہ بات کسی بھی وقت بازی پلٹ سکتی تھی۔
اس لے دو شہزادے ہی مد مقابل رہے، دارا شکوہ اور اورنگزیب۔
دارا شکوہ اچھا عامل تھا، اچھا رانما معتدل مزاج ، نرم دل لیکن ایک اچھا سالار نہ تھا۔ ابتدائی چھوٹی کامیابیوں کو فتح سمجھ بیٹھا، لیکن اورنگزیب کے حملہ کے سامنے نہ ٹھہر سکا۔ زنجیروں میں جھکڑ کر دارلحکومت لایا گیا، اور پھر پھانسی چھڑھا دیا گیا۔
اورنگزیب کی شخصیت میں یہاں ایک تضاد پایا جاتا ہے، ٹوپیاں سینے والے شہنشاہ نے تخت کے راستہ میں آنے والے کئی لوگوں کو گرفتار کر کے مختلف جرائم کے الزام میں مغل روایات کے برعکس قاضی کے حکم کے بغیر سزا دی۔ اپنے پیش روؤں کے برعکس اورنگزیب نے فضول خرچی نہیں کی اور ہمیشہ حالت جنگ میں رہا۔
تخت پر گرفت مضبوظ ہوتے ہی اس نے تمام محاظ کھول دئیے ہر باڈر پر اسکی فوجیں سلطنت کو وسعت دینے میں لگی رہیں۔
اس کے دوع میں مغل سلنطنت نے اپنا عروج چھو لیا۔ دکن کے محاذ نے اورنگزیب کو زچ کیے رکھا ۔ 21 سال کی کوشش کے بعد دکن فتح ہوا۔
ہر سال قریبا ایک لاکھ لوگ جان سے جاتے اور روپیہ کا کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ کوئی فضول خرچی نہ کرنے کے باوجود خزانے پراس ایک جنگ کی وجہ سے بوجھ رہا۔
مغل افواج کی ترتیب
مغل ریگولر فوج نہیں رکھتے تھے، تمام عہدہ داروں کو انکے گھوڑوں کی تعداد کے لحاظ سے عہدہ دیا جاتا تھا، سب سے نچلا 10 گھڑ سوار سے 25000 ہزاری شہزادوں تک کار گزاری کے لحاظ سے منصب دئیے جاتے تھے،
منصبدار صوبہ دار جیسے عہدہ دار اپنے عہدہ اپنے عہدہ کے مطابق اپنے سوار رکھنے کے پابند تھے ۔ ہر سوار دو گھوڑے لازم رکھتا تھا۔ مغلوں کی پیدل سپاہ کی نسبت انکو رقم بھی اچھی ملتی تھی اور یہ نظم میں بھی بہترین تھے۔ پورے ہندوستان میں مغلوں کی سوار فوج کا کوئی مقابلہ نہ تھا۔ان افواج کو تنخواہ دینے کے لیے جاگیریں عطا کی جاتی ،یاکوئی دیگر عہدہ صوبیداری وغیرہ ۔۔
بادشاہ اپنے پاس چند ہزار فوج ہی رکھتا تھا۔ فوج کے علاوہ باشاہ اپنے پاس ذاتی محافظوں کا دستہ بھی رکھتا تھا،جو سب سے اعلی اور وفادار سپاہیوں پر مشتمل تھے۔
By Paul Maret 1710 Voyage de Francois Bernier by Paul Maret 1710, in "Sur les routes de l'Asie", Public Domain, Link
قحط الرجال
اورنگزیب کے بعد حکومت بہادر شاہ کے حصے میں آئی،جس نے نے راجپوتوں، مراٹھوں اورسکھوں سے صلح کر لی اورجاٹوں کی بغاوت کا قلع قمع کردیا۔ لیکن یہاںسے قحط الجال کا وہ دور شروع ہوتا ہے جس نے اورنگزیب کی بنائی عالی شان سطنت چند سالوں میں ہی تباہ کر دی۔
ہر راجہ خودمختیار اور ہر صوبیدار باغی بن گیا۔
یہ فوجیں خارجی محاز کے لیے بہترین لیکن انرونی بغاوتیں کچلنے میں اتنے کارگر نہ تھے، بیرونی محاذ پر جنگ ایک دفعہ ہوتی ہے، شورش میں ہر لمحہ تیار رہنا اعصاب تباہ کر دیتا ہے۔
بیرونی محاظ سے فرصت ملتے ہی فوجی سالار مرکز کی طرف توجہ دیے لگے، سالار بجائے اپنی افواج کی تربیت ،نئے طریقوں اور نئی ایجادات کی طرف توجہ دیتے سیاست کو اپنا نیا میدان بنا لیا ۔
سید برادران کا عروج
امں کے قیام میں سادات بارہ کا بہت بڑا ہاتھ تھا، جن میں سادات برادان دو سید بھائی تھے۔ ارو مغل سکطنت کے سالار تھے ،انتھائی قابل ،دلیر ارو فہم رکھتے تھے ۔انکی طاقت اس قدر بڑھی کہ ایک وقت میں اصل بادشاہ یہی تھے،سید براد ران کی اصل بادشاہ گری صاف بادشاہوں کے عرصہ سے عیاں ہے.
تخت کے خواہشمند تمام شہزادے اکثر رات کے اندھیروں میں سادات برادران کے محلات کو جانے والے راستوں پر پائے جاتے ،ہر شہزادے کی کوشش ہوتی کہ سادات برادران کی خوشنودی حاصل کریں . جو بھی بادشاہ تخت نشین ہوا سادات برادران کے سامنے سر جھکانے پر مجبور رہا ۔ گر کسی نے سر اٹھانے یا اپنی مرضی کرنے کی کوشش کی تو اس کوتخت کے ساتھ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔
اورنگزیب کے دور کے پرانے اور تجربہ کار امرا میں سے جس نے بھی مخالفت کرنے کی کوشش کی اسکو دربار سے دور بجوادیا گیا ۔اور دربارویوں میں طاقت کا توازن ایسا بگڑا کہ پھر سنبھل نہ پایا ۔سکہ بادشاہ کے نام کا اور حکم انکا چلتا تھا،تمام تعیناتیاں انکی مرضی سے ہوتی تھیں۔ اور ہر اہل افراد کی جگہ من پسند افراد نے لے لی ۔
Mughal Emperors After Aurangzeb Alamgir: Decline and Fragmentation
Name of Emperors | Reigns | Period served as Emperors |
---|---|---|
Azam Shah | 1707 | Three Month |
Bhadur Shah | 1707-1712 | 4 Years and 9 Months |
Jahandar Shah | 1712-1713 | 1 Year |
Fruk Sair | 1713-1719 | 6 Year and48 days |
Rafi ud Darajat | 1719 | 98 days |
Shah Jahan ii | 1719 | 3 Months |
Muhammad Shah | 1719-1748 | 29 Years |
Ahmad Shah Bahadur | 1748-1754 | 6 Years |
Alamgir ii | 1754-1759 | 5 Years and 6 Months |
Shah Jahan iii | 1759-1760 | 10 Months |
Shah Alam ii | 1760-1788 | 28 years |
Shah Jahan iv | 1788 | 2 Months |
Akbar Shah ii | 1788-1806 | 33 Years |
Bahadur Shah Zafar | 1837-1857 | 20 Years |
مغل سلطنت کی عظمت کا راز
مغل سلطنت کو ایک کے بعد ایک انتہائی محنتی اور قابل سربر میسر رہے، مغل اہل ترین افرد کو نوازتے اور سلطنت کا نظام منظم کرتے چلے گئے ،
جنگیں ہوں ،بغاوتیں آ پسی لڑایاں اس نظام نے سلطنت کو گرنے نہیں دیا ،اور خود کار طریقہ کار سے بہتر سے بہترین کی طرف گامزن رہا ۔۔۔۔۔
شاہجہان کے دور میں برصغیر دنیا کی کل پیداوار کا 25 فیصد کا حامل ملک تھا ۔
پوری دنیا میں یہ خطہ اپنی مثال آ پ تھا ۔ لیکن سالاروں کی اتنی بڑھتی دخل اندازی اور سلطنت کے باقی تمام اداروں میں اپنے من بھاتے افراد لگا کر سلطنت کی تباہی یقینی بنا دی گئی۔مزید آپسی مخالفتیں کسی بھی دیوان کو زیادہ دیر ٹکنے نہ دیتی اس لیے ایک اکبر کے دور میں اپنے عروج کو پہنچنے والا نظام زمیں بوس ہو گیا۔ یہ وہی دور تھا جب انگریز اور دوسری قومیں برصغیر میں طاقت پکڑ رہی تھیں ,انہی کے ہوتے فرخ سیر کے دور انگریزوں کو بغیر ٹیکس سامان بنگال میں لانے کی اجازت دے دی گئی۔
محمد شاہ رنگیلا وہ آخری مغل حکمران تھا جس نے باقی بچ جانے والی مغل سلطنت پر اپنی گرفت مضبوط کی مسلسل ہونے والی بغاوتوں سازشوں اور نادر شاہ کے حملوں کے باوجود کسی حد تک اس سلطنت کو چلنے کے قابل کیا محمد شاہ رنگیلا کے دور میں ان دونوں بھائیوں سے چھٹکار احاصل کیا گیا ۔ نادر شاہ کا حملہ مغلوں کا بھرم توڑ گیا، اور یہ سب نے دیکھا کہ مغل ناابل شکست نہیں رہے۔
مغل سلظنت کا دیوانی نظام کیسے تباہ ہوا؟
قابل دیوان مغل سلطنت کو عظیم بنا گئے،لیکن جو دروازے یہ دونوں بھائی شاہی دربار میں کھول گئے انہی نے ریاست کو ڈبو دیا۔
، مسلسل جنگیں ، بغاوتیں آپسی لڑائیاں وہ نہ کر پائی جو انہوں نے کیا ۔
کوئی ریاست کتنی بھی طاقتور ہو بنیاد کو لگنے والے دیمک آخر تاریخ کا حصہ بنا ہی دیتےہیں
سوال یہ پوچھا جانا چاہیے کیوں انہوں نے ایسا کیا؟
جانتے بھوجتے انکے سامنے مغلیہ سلطنت کو زوال شروع ہوا ۔۔۔
مجھے لگتا ہے شائد یہ بھی اسی بشری کمزوری اور اس چوتھے عنصر کا شکار ہو گئے ہوں گے جن سے خال ہی کوئی بچ پایا ہے ۔
فوجی سالار ہی وہ دیمک تھے جو سلطنت کی بنیاد کھا گئے

سید علی
سید علی کی بادشاہ فرخ سیر کے ساتھ یاک پینٹنگ

سید عبداللہ خان
سید عبداللہ اپنی محفل میں