حتمی انصاف ہوا؟
- فروٹ تاریخ کا سق
نوید اسلم
- 31/01/2023
- 1238
ا نصاف کے نظام کی بنیاد ہے کہ سوگنہگار رہا ہو جائیں، لیکن ایک بے گناہ کو سزا نہ ہو
جو ایک سو ایک واں مجرم ثابت ہو جائے اس کو نشان عبرت بنا کر ایک ہزار کے لیے
سبق بنا دیا جائےاور مکمل امن کا گھر بن جائے۔
ہماری بد قسمتی یہ ہیکہ سو گنہگار رہا کر کے جو مجرم ثابت ہوتا ہے وہ اس قدر طاقت ور کہ قانوں ہی بدل دے۔۔۔۔۔
100 سال پہلے کے ایک واقعہ کی مثال آج بھی مکمل کامل ہے۔
فیصلہ کہانی کے بعد آپ خود کریں

تاریخ کی کتاب کھولتے ہیں ۔
مری کے قریب ایک فیکٹری ہے مری برئیوری، اس کے مالک یہیں اسی ملک میں رہتے تھے ۔ گورا صاحب ایڈورڈ کے گھر اک بچہ مری میں ہیدا ہوا جس نے بعد میں جنرل ڈائر کے نام سے شہرت حاصل کی۔
یہیں جوان ہوافوج میں گیا ٹریننگ لی زیادہ نوکری بھی اسی ہندوستان میں کی ۔
امرتسر میں1919 میں ایک خون بہا تھا، بیساکھی کا تہوار تھا۔
جلیانوالہ باغ
باغ پرانے شہروں کی طرح ہر طرف سے بند اور 4 چھوٹی گلیاں گزر گاہ تھی۔
جنرل صاحب نےخود ساختہ سا غیر ضروری ماشل لا نافذ کیا جو شائد لوگوں تک پہنچ نہ سکا ۔تب شہر چھوٹے ابادی دیہاتوں میں رہتی تھی۔ تہوار منانے شہروں میں اکھٹے ہوئے تھے
باغ میں نہتے لوگ بچے جوان موجود تھے،جنرل صاحب وہاں پہنچے تو جنرل صاحب کے ساتھ 50 کے قریب سپاہی تھے ۔
تمام کے پاس 303.بندوقیں تھی جنرل صاحب نے راستوں پر دو گاڑیاں مشین گن کی لگا ئی اور فائر کا حکم دے دیا ۔
چند ایک نے ہوائی فائر کی تو صاحب نے غصہ فرمایا اور خود گن کو رخ باہر جانے والے راستے کی طرف کر دیا۔
مطلب راستے بند اور جو اک دو کھلے انہی پر فائر ۔
چاند ماری تب تک جاری رہی جب تک گولیاں ختم نہ ہو گئیں ۔
1650گولیاں چلائی گئی۔۔
اگلے دن شہر میں سوگ تھا لیکن جنرل صاحب کا فرعون آسمانوں پر تھا ۔ حکما جو چاہا وہی ہوا ۔ ۔
ایک گورا صاحب کی جائے قتل پر ہندوستانیوں کو پیٹ کے بل رینگ کر گزرنے کا حکم تھا۔
یہ اتنا بڑا واقعہ تھا کہ ہورا ملک ہل کر رہ گیا ۔
برطانوی سامراج کی پوری تاریخ میں آ ج تک ایسا واقعہ نہیں ہوا ۔
اس دور میں تمام سرکردہ لوگوں نے شدید احتجاج کیا۔
پہلے بھارتی نوبل انعام یافتہ رابندر ناتھ ٹیگور نے کالج میں سیاہ گاون پہننا بند کر دیا اور کہا
قانون, قانون نہیں ۔
شور اٹھا انکوائرں ہوئیں اور کوئی اک انکوائری بھی جنرل صاحب کے حق میں نہ ہو سکی۔ مارشل لا کو بلا جواز بے موقع مانا گیا۔
بڑے جنرل صاحب نے شدید غصہ میں او ایس ڈی کر دیا، اور کچھ عرصہ بعد نئے جنرل صاحب نے شدید دباو میں جنرل ڈائر کو کہا
چل رہن دے، نظام چلن دے
استعفا دے دو یار بڑا پریشر ہے ۔
مکمل انصاف ہوا؟
لیکن پھر بھی عوامی دباو کم نہ ہوا۔
انگلستان میں برطانوی پارلمنٹ میں بڑی زور دار بحث و مباحثہ ہوا کہ ظلم ہے انسان ہیں ۔
اک طبقہ نے قراداد پاس کی کاروائی کی جائے۔
لیکن بڑے لارڈ صاحب نے ایک سائن سے کوڑے میں پیھنک دی۔
کہ ریاستی رٹ کے لیے ضروری تھا۔
بہت شور ہوا لیکن آخری کوشش بھی دو تہائی سے ناکام ہو گئی۔
جنرل صاحب کو سخت سزا دیتے ہوئے معقول رقم دے کر روانہ کر دیا گیا ۔ کہ اب کئی کنال بڑے ولا میں اپنے کتے میم صاحب اور بچوں کے ساتھ رہیں اسکو دوبارہ سے غلاموں پر حکومت ک موقع نہیں دیا جائے گا۔
جنرل صاحب آخری وقت تک اپنے موقف پر قائم رہے اور نادم نہ ہوئے جب مرے تو انتہائی مشکل حالات کے باوجود آج کے کڑوڑوں کی ملکیت چھوڑ کر گئے
ہم نے اس واقعہ سے کیا سیکھا۔
1- ہم نے اس واقعہ سے انکوائری کرنا سیکھا، سرکاری انکوائری میں 370 ہلاک اور 1000 زخمی تھے جبکہ پرائیوٹ زرائع اور تب کے امدادی گروپس کے مطابق تعدار بڑھتے بڑھتے مرنے والے1000 سے بڑھ گئے۔
2- موقع کی مناسبت سے جنرل صاحب نے سکھ کمیونٹی کو مینج کیا اور انکوگولڈن ٹیمپل میں عزت دی گئی۔
باقاعدہ پگ پگھڑی پرساد اور تلوار تحفہ ہوئی۔
3- عوام کی تکلیف کو دیکھتے ہوئے آخر فی کس 500 روپے دیے گئے،جو آج کے تقریبا ساڑھے 4 لاکھ بنتے ہیں۔
(ہم نے آج تک ریٹ بھی نہیں بڑھایا)
کیا انصاف ہوا ۔۔۔۔
ایک ہزار بے گناہ نہتے،انسان اور بچے قتل ہوے کیا انصاف ہوا۔۔۔
جو قتل ہوئے وہ ہم ہی تھے۔۔۔
پچاس سپاہیوں میں سندھی تھے پٹھان تھے گورکھا تھے بلوچ تھے ۔ وہ ہم ہی تھے ۔گورا صاحب نہیں تھا۔۔۔
1650 میں سے کتنی گولیاں جنرل صاحب نے خود چلائی اس پر تاریخ خاموش ہے۔ چھان ماریں کتابیں بندوق کی نالی کا رخ درست کرنے کے بعد وہ ہم ہی تھے ۔۔۔۔
لاشیں گرتی رہی گولی اک وجود کے نکل کر دوجے کے پار ہوئی۔۔۔۔
جو کھڑے تھے وہ ہم ہی تھے ۔۔۔۔۔
کیا کھبی انصاف ہوا
دنیا میں جاپان کے سینکڑوں سال پرانے گینگ سے لیکر روس کے بدماشوں تک کچھ ان دیکھے ان لکھے قوانین
لاگو ہوتے ہیں,جنگل کے قانون جیسے۔
مثلا غداروں کو پناہ نہیں دیتے سگا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔
فیملی کو نہیں چھڑتے چاہے کتنی دشمنی ہو۔
ایسے ہی ہمارا بھی ہے۔۔
پوری تاریخ میں دیکھ لیں،جانے والوں کو نہیں پوچھتے چاہے 30 لاکھ بندہ بنگال میں مروا کے محفل رقص و سرور منعقد کریں ۔
80 ہزار مروا کر پاوں پکڑ کر صلح کر کے اگلے 80 ہزار کی تیاری کریں ۔
ہم کھڑے رہیں گے ڈٹ کر۔۔۔
لیکن ہم نے یہاں بہتری کی، کچھ بدلاو آیا ہے ۔
گورا صاحب جب قید سخت کاٹنے شام کو وسکی کا گلاس بھرنے خود اٹھتا تھا،بڑی تکلیف محسوس ہوتی تھی،
ہم نے وہ ختم کر دی۔
چار دن دیار غیر میں سیر و تفریح سے تھکے ہوئے۔ بیچارے خواہ وزیر ہو جنرل ہو جج ہو جیسے ہی پریشان حال واپس لوٹتے ہیں ائیر پورٹ سے گھر تک۔۔۔۔۔
وہ ہم ہی ہوتے ہیں جو صاحب کی قید سخت کے ساتھی ہوتے ہیں ۔
ہر جگہ شیدوں(بوقت حق سوائے حق سب کہنے والے) کی فوج ظفر موج ڈٹی ہے ۔۔۔۔۔
جو اچھے کی امید میں کھڑے ہیں ۔۔۔۔۔
جنکو حق کے ٹائم 1000 رکات نماز نفل باجماعت یاد آجاتی ہے۔
میں نے آج تک حضرت “حر” پر کسی کو تبرہ کرتے نہیں د دیکھا۔۔۔۔
بابا جناح کراچی والا ملک تو لے کے دے گیا ۔۔۔
شیدا ہم نے خود مارنا ہے ۔۔۔۔۔
شیدہ مار دیو کوفہ مر جآئے گا
بی بی فاطمہ کا گھر پر ظلم ہونے سے اپنے بچے بھائی قتل کروانے اور
کل کے 80ہزار مرنے تک ہر جگہ ہم کھڑےتھے۔
تم بس کھڑے رہو
ڈٹ کے کھڑے رہو
100 سال میں ہم نے فی لاش ریٹ بھی نہیں بڑھایا۔
تم کھڑے رہو ۔ہاں کھڑے رہو۔۔۔۔