نئی نسل کی تباہی کا ذمہ دار کون؟
دنیا کے کامیاب افراد میں پائی جانے والی دس مشترک باتیں
انسان اپنی مرضی سے امیر یا غریب پیدا میں پیدا نہیں ہوتا ،لیکن اپنی حالت کو بدلنے اور غربت میں سسک سسک کر مر جانے میں اس کا خود کا کردار زیادہ ہوتا ہے.
اسی طرح قوموں کی زندگی میں ملک ترقی یا تنزلی کا راستے پر گامزن ہوں گے،اسکا فیصلہ افراد کے رویے میں چھپا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔
دنیا کے امیر ترین افراد کی فہرست کا جائزہ لیں توبغیر کسی خاص مشقت سامنےچند خوبیاں سامنے آتی ہیں
1- اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ پیسہ کمانے والوں کا تعلق ٹیکنالوجی سے ہے ۔۔۔۔
2- زیادہ تر لوگ خود اپنی محنت سے اپنے بل بوتے پر آ گے آئے اور دنیا میں اپنا نام منوایا۔
3- ان افراد میں سے بہت سے لوگ اپنی اعلی تعلیم بھی مکمل نہ کر سکے بلکہ چند تو اوائل طالب علمی میں ہی درسگاہوں سے الگ ہو گئے۔
4- ان افراد میں ایک چیز یکساں ہے، ان لوگوں نے منفرد سوچا الگ نظر سے دنیا کو دیکھا اپنی سوچ کو ثابت کرنے کے لیے لڑ گئے ۔
5- ان تمام افراد کو تنہا چھوڑا گیا،انہوں نے گیراج ، اور ٹوٹے پھوٹے سامان سے آغاز کیا۔
6- تمام افراد کو کامیابی دہلیز پر دھری نہیں ملی ان لوگوں نے دن رات ایک کیے بلکہ باقاعدہ اب تک اسی جوش و جذبہ سے کام کرتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ کلب کے ممبر ہیں۔
7- اب تک نت نئے منصوبے سوچتے ہیں، ان پر عمل کرتے ہیں اور کامیابی کے ساتھ دنیا کے لیے نت نئی راہیں کھولتے ہیں جبکہ ناکامی سیکھنے اور جاننے کے نئے راستے لے کر اتای ہے۔
8- ان لوگوں کو انکی منفرد سوچ کو سپورٹ تو نہ مل سکی لیکن نظام کی مضبوطی نے ان کی اڑان کےلیے محفوظ آسمان مہیا کیا، ان کی حوصلہ شکنی نہ کی گئی
9 – انکے ساتھ فراڈ نہ ہوا ان کو Noc لینے کے لیے دفتر دفتر نہ جانا پڑا۔
10- یہ لوگ اکیلے کھڑے رہے ، سسٹم نے انکی تربیت ایسی کی کہ یہ لوگ ڈٹ کر کھڑے ہوں سکیں۔
بےساکھیوں کے بغیر چل سکیں ۔سہاروں کی عادت نہ بننے دی ۔
بچوں کی تربیت میں ریاست کا کردار
بچے کی پیدائش سے لے کر اوائل جوانی تک وہ بچے کو اف تک نہیں کہنے دیتے ماں باپ کو پابند کرتے ہیں کہ بچوں پر توجہ دیں یہاں تک کہ باپ کو نوکری چھڑوا کر بچوں کی ذمہ داری دے دیتے ہیں اور باقاعدہ اس کی تنخواہ مقرر کرتے ہیں ۔
بچوں کو خوف سے دور رکھتے ہیں ، نفسیاتی گرہیں نہیں پید ہونے دیتے۔
ریاست انکی جدید تربیت کا بندوبست کرتی ۔
انکے لیے تمام تعلیمی وسائل مہیا کرتی ہے۔
صرف خود پر اور اپنی سوچ پر یقین کر سکیں ۔۔۔۔۔۔۔
جدید فلسفہ آسودہ حالی
آج کی دنیا کا میں کوئی شخص خوشحال یا آسودہ حال نہیں رہ سکتا جب تک کہ وہ passive income پیدا کرنے کا بندوبست نہ کرے ۔
یہاں پھر ریاست نے انکے مفادات کا اس قدر مضبوط نظام ترتیب دیا ہے کہ ہر شخص بلا خوف و خطر انوسٹمنٹ کر سکتا ہے۔
کسی کو اس بارے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کہ اسکا حق مار اجائے گا ۔
کسی کو اس بارے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں کہ بیگ نوٹوں سے بھر کر کوئی شخص بیرون ملک چلا جائے گا۔
فلو آف کیش اتنا زیادہ ہے کہ آج سیاحت ، فیشن، ہاوسنگ، الغرض ہر شعبہ میں اس قدر خرچ کرتے ہیں ۔
کہ پاکستان جیسے ملکوں کے سالانہ بجٹ سے بڑا ایک معمولی کمپنی کا ٹرن اور ہے ۔
مغرب کی سیاست
حکومت کسی کی بھی ہو مالیاتی استحکام قائم رہا۔
سیاست اور ریاست کا مفاد ٹکرانے نہیں دیتے۔
مالیاتی پالیسیاں سوچ سمجھ کربنائی گئی اور انکو بھرپور طریقہ سے نافذ کر دیا گیا۔
وائیٹ کالر کرئم کے خلاف قوانین اسقدر سخت ہیکہ دیگر جرائم میں شائد شک کا فائدہ مل جائے لیکن مالیاتی جرائم میں ممکن نہیں ۔
ڈیجٹیلائزیشن نے ایک محفوظ ماحول مہیا کر دیا۔
بحثیت قوم ہم کہاں کھڑے ہیں؟
اردگرد نظر دوڑائیں
بچوں کو محفوظ ماحول تو دور کی بات مناسب خوراک تک مہیا نہیں کر سکتے ۔
ہمارا تعلیمی نظام ایک اچھا الکٹریشن تک مہیا نہیں کر سکتا۔
پورے شہر سے ہم ایک اچھا ماہر گھاس کاٹنے والا تک نہیں تلاش کرسکتے۔
ہمارے حکمران چھوٹی سرجری کے لیے بیرون ملک جاتے ہیں مطلب انکو ہمارے ڈاکٹروں پر یقین نہیں ۔
ہمارے پل بیٹھ جاتے ہیں ، ڈیم پھٹ جاتے ہیں ، ٹنل بنائیں تو بہہ جاتی ہے ۔
ہر دوسرے سال ملک اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے۔
کالجز نے فیکٹریاں لگائی ہوئی ہیں ،نت نئی ڈگریاں بانٹنے کی،
لیکن اعلی ترین ڈگری ہولڈر ایک صفحہ تک خود نہیں لکھ سکتے۔
اکیلے کھڑے ہو کر اپنی سوچ یا مقام کے لیے لڑنا تو دور اپنے بنیادی حقوق کی بات بھی ڈرتے ہوئےکرتے ہیں ۔
ڑیڑھ کی ہڈی کے بغیر اک پوری نسل، جسکا جی چاہے ہانک لے جائے،
کہانی کاروں نے جب دیکھا کہ یورپ کا مقابلہ نہیں کر پا رہے انکے ہر کام کو شیطانی عمل کہہ کر مقابلہ سے جان چھڑوا لی۔
کنویں کے مینڈک بن کر رہ گئے
اب خود انہی کی چوکھٹ پر غیرت ایمانی تلاشتے ہیں
جاں بھی گرو غیر، بدن بھی گروِ غیر
افسوس کہ باقی نہ مکاں ہے نہ مکیں ہے
مالیاتی امور اور ہماری فراست
اپنے ارد گرد 3 ایسے افراد تلاش کریں.
جو کسی دوست کمپنی وغیرہ میں سرمایہ کری کر کے اپنی آمدنی کا ذریعہ بنا پائے ہوں۔
ہر کسی کو آخر میں فراڈ کا ہی سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
اور جتنا بڑا فراڈ ہو گا لٹیرا اتنا ہی باعزت مانا جائے گا۔
قوانین جو پہلے ہی کمزور ہیں ان پر عدم توجہ اور کاغذی عملداری نے نظام انصاف کو اپاہج کر دیا ہے۔
مغرب کے پاس ایک جج میڈیا ٹرائل کرتا ہے اور معاشرہ کا نرم رخ پیدا کر نے کی کوشش کرتا ہے
ہماری نیور کا آ دھا حصہ عدالتی کاروائیوں پر محیط ہوتا ہے۔
نیب جس کے لا محدود اختیارات کا دعوہ کیا جاتا ہے
وہ بھی صرف ڈرا دھمکا کر اور ڈیل کر کے ریکوری کرتا رہا۔
ٹھرٹھر کر برستے ہیں آسمان سے دکھ
مگر یہ شہر مسلسل عذاب مانگتا ہے
حادثے سانحے اور واقعے ایک لمہہ میں نہیں ہوتے ۔
ہم پوری کوشش کر کے زور لگا کے ہر اس عمل کو مکمل کرتے ہیں کہ بالاخر اس حادثہ کی مجبوری بن جاتا ہے پیش آجانا۔
ہم برسوں کی محنت سے اپنی بقا کا ہر دروازہ خود بند کرتے ائے ہیں، قسمت نے کئی بار ہمارا ہاتھ تھامنا چاہا لیکن ہم نے ٹھان رکھی ہے۔
ذمہ دار کون؟
اس نسل اور پاکستان کو تباہ کرنے میں ہر اس دودھ والے کا ہاتھ ہے جس نے دودھ میں پانی اور کیمکل ملا کر انکو ذہنی کمزوری کا شکار کیا ،
ہر وہ تاجر کس نے غذائی ملاوٹ کی۔۔۔
ہر وہ استاد جس نے انکی سوچوں کو اپاہج کر دیا۔۔۔
یورپی یونین میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس پر قانون سازی ہونے جا رہی ہے اور ہم اب تک ووٹ پرچی پر یا مشین پر فیصلہ نہیں کر پائے۔
وہ لوگ مکمل کیش لیش نظام کی طرف جا رہے ہیں۔
اور وہ لوگ جنکی غفلت بے حسی اور ظلم نے ہمیں ڈبونے کی پوری تیاری کر لی ہے ْ، شام کی چائے پر دکھ کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں کہ نسل خراب ہو گئی۔۔
خدادا یہ مت کہا کریں الؐلہ بہتر کرے گا۔
رب کی ایک صفت عادل کی بھی ہے۔ ہمارا ڈوبنا طے ہے
انہیں روکے گا اے نا خدا کیا غرق ہونے سے
کہ جنکو ڈوبنا ہو ڈوب جاتے ہیں سفینوں میں ۔۔