جشن آزادی مبارک
نیا اضافہ
مزید پڑھیں
عید ، تہوار ، جشن ، میلے ۔۔ لوگوں کے تہوار ہیں، اور لوگوں کے ساتھ ہی اچھے لگتے ہیں ۔ لوگوں کے بغیر جشن بےرونق اور بے رنگ سے لگتے ہیں ۔،۔۔۔۔
حیرت سے اب تک باہر نہ آسکا ہوں کہ اس مرتبہ کسی گھر پر چراغاں نہیں ۔۔۔وہ لڑیاں ۔۔رنگ بھرنگی چائنہ لائٹس وہ جگہ جگہ رنگ برنگی جھنڈیویں وہ رونق سائلنسر کے بغیر موٹر سائیکل کچھ بھی نظر نہ آیا ۔۔۔۔۔۔
پہلی دفعہ احساس ہوا کہ کھلنڈرے نوجوانوں کے بغیر جشن آزادی کتنا اداس لگتا ہے
ہم نے آزادی لی کیوں تھی ۔۔۔۔
کیا کبھی آزادی لی اور کس سے۔۔۔
انگریز ہنوستان کی دولت لوٹ کر لے جاتے ؟
اب بھی ہے ،کاٹھے انگریز اپنی دولت آج بھی ملک سے باہر ذخیرہ کرتے ہیں
قانون امیر کا اور غریب کا اور تھا ۔۔۔۔۔
ج بھی وہی ہے،امیر کے گھر کی دہلیز پر انصاف میسر ہے اور غریب کی نسلیں اپیلوں میں کھیت ہوتی ہیں ۔۔امیر کا گھر سب جیل اور جج پوچھ کر فیصلہ کرتا ہے۔
پرائی جنگوں میں ہندوستانی مروائےگئے ۔
آج بھی وہی ہے ہر وقت جہاد کے لیے دستیاب ،دنیا میں کہیں خون بہے ہمارا جوان کسی نہ کسی روپ میں موجود ۔۔
بھارت کے فیصلے بھارت میں نہیں ہوتے تھے ۔
اب بھی وہی ہے ۔۔۔۔ایک شاخ لندن ہے اور ایک دبئی میں ۔۔۔۔اور مین آفس ۔۔۔۔۔۔۔۔
بات کرنے اور حکومت کی مخالفت کی اجازت نہیں تھی۔
آج بھی حکومت مخالف بات کرنے اور سوال کرنے پر پابندی ہے ۔ سافٹوئیر اپڈیٹ کیا جاتا ہے۔۔۔
تمام صاحب لوگ چھٹیاں گزارنے بھارت سے باہر جاتے۔
آج بھی تمام اشرافیہ چھٹیاں گزارنے یورپ جاتی ہے۔
اشرافیہ کے بچے اور عام آدمی کے بچوں کی تعلیم وعلاج الگ تھے ۔۔۔
آج بھی ہے ۔۔۔۔
کون سی آزادی لی ہے کیوں مروایا ہے 20 لاکھ لوگوں کو ۔۔۔۔۔۔
کنویں بھر گئے ، عزت بچاتی بہنوں ، بیٹیوں سے
آج کے دن کے لیے کیا واقعی آج کا دن اس قدر قیمت رکھتا ہے ۔
تمام لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان کے وجود میں آنے سے لے کر آج تک ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میں کسی نہ کسی نے آزادی کا نعرہ نہ لگا یا ہے ،کون سی آزادی کس سے آزادی ۔۔۔۔۔۔
کیسی آزادی کی توقع ہم رکھتے ہیں؟
ریاست کا مفاد فردکے مفاد سے کیوں مختلف ہے؟
پاکستان ایک نظریاتی ملک تھا ، یہ دو قومی نظریہ پر معرض وجود میں آیا، آج لگتا ہے دوقومی نظریہ اصل میں سایئوں کی وجودوں پر حکومت کا نام ہو گا ۔۔۔۔
شخصیت پرستی اس قدر حاوی ہوگئی ہے ،کہ نظریہ نہ بن سکتا ہے،نہ پنپ سکتا ہے، نہ زندہ رہ سکتا ہے ۔۔۔۔
ریاست مدینہ کا دعویٰ کرنے والے ، اس میں نقائص نکالنے والے، اور اس کی مخالفت کرنے والے، کیوں یہ بھول گئے ہیں کہ مدینہ کی ریاست کا پہلا سبق وہ تھا ، ایک مہاجر ،ایک انصاری بھائی بنے، اپنے مال کا آدھا حصہ اپنے بھائی کو دے دیا ، اور کھلے دل کے ساتھ سختیاں جھیلتے آے لوگوں کو گلے سے لگایا۔ آج بات تک برداشت نہیں ۔۔۔
ریاست مان ہوتی ہے ۔۔۔۔
کون سی ریاست ہے جو پیسوں کے لیے اپنے لوگوں کو بیچ دے۔۔۔
قحط الرجال کے دورمیں اپنی خود ساختہ سوچ اورشخصیتوں کی دیوتاوں کی طرز پر پیروی ،ہمیں کہاں لے آئی ۔۔۔۔۔۔جانتے بھوجھتے “چل کوئی گل نہیں ۔۔۔آگے بڑھتے ہیں “ کی پالیسی منزل کی طرف نہیں بلکہ اس سے مخالف لے جا رہی ہے ،
اگر رخ منزل کی طرف ہوتا تو منزل نہ سہی منزل کی نشانیاں تو نظر آتی ،
ہر آنے والا دن پہلے سے بہتر ہوتا۔۔۔۔ نہ کہ بدتر۔
ویران جشن ، اندھیری رات اور مایوس جوان جس وقت کی آہٹ ہیں اسکو کیوں کوئی نہیں سن رہا ، حادثے کبھی لمحوں میں نہیں ہوتے ، انکے لیے سالوں کی بے حسی ، ظلم ، جھوٹ ، مصلحت پسندی ، انا پرستی ،منافقت درکار ہوتی ئے ۔۔۔۔۔۔
غلط کو غلط کہنا ہو گا برائی کو روکنا ہو گا ، حق سچ کی بات کرنی پڑے گی ، نہیں تو مشکل فیصلے ہوتے رہیں گے ، جونکیں لگتی رہیں گی ، نسلیں آتی اور گزر جاتی رہیں گی۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر آج ہمارے ہونے سے ہماری مصلحت پسندی سے آج کو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔۔۔۔۔
تو تاریخ بھری پڑی ہے کئی قوموں کی عبرت سناتی کہانیوں سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان آپ ہیں پاکستان میں ہوں ۔۔۔۔ہم ہیں پاکستان ۔۔۔۔
غلامی سوچ میں ہوتی ہے اور آزادی بھی ۔۔۔۔۔
علامہ اقبال میں نے شائد آج کے لیے لکھا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
یورپ کی غلامی پہ رضا مند ہوا تو
مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں ہے
رسماً جشن آزادی مبارک
مزید پڑھیں